انڈیا کے بینک کے مطابق گزشتہ سال انڈیا کی روسی تیل کی درآمدات میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔بینک کی طرف سے جاری کئے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ماسکو سے خام تیل کی خریداری میں تیزی سے تقریباً 5 بلین ڈالر کی بچت کی گئی۔یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب مغربی ممالک روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے اپنی توانائی کی درآمدات میں کمی یا اس پر پابندی لگا رہے ہیں۔روس چین اور انڈیا جیسے ممالک کو رعایت پر تیل اور گیس فروخت کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ انڈیا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے۔2021 ء تک انڈیا کی سالانہ خام درآمدات میں روسی تیل کا حصہ صرف 2 فیصد تھا۔ بینک آف بڑودہ نے کہا کہ یہ تعداد اب تقریباً 20 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انڈیا نے گزشتہ مالی سال کے دوران روس سے تیل کی خریداری سے اسے تقریباً 89 ڈالر فی ٹن خام تیل کی بچت کی تھی۔امریکہ اور یورپ کے دبا ؤکے باوجود انڈیا نے روسی درآمدات پر مغربی پابندیوں کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ نئی دہلی نے بھی واضح طور پر یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت نہیں کی ہے۔انڈیا نے اپنی تیل کی خریداری کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں توانائی کی درآمدات پر انحصار کرنے والے اور غربت میں رہنے والے لاکھوں لوگ موجود ہیں وہاں پر وہ زیادہ قیمت ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں‘وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے گزشتہ سال ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے، یورپ نے روس سے انڈیا کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ توانائی درآمد کی ہے‘انہوں نے کہا کہ یورپ اپنی درآمدات کو کم کرنے میں کامیاب رہا ہے اور اسے آرام دہ طریقے سے کر رہا ہے۔ اگر یہ اصول کی بات ہے تو یورپ نے پہلے دن کیوں نہیں کاٹا؟۔اس تنازعہ کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آرہا اور کچھ تجزیہ کار توقع کررہے ہیں کہ روس ایشیا کے توانائی کے سب سے بڑے درآمد کنندگان کو سستے تیل کی پیشکش جاری رکھے گا۔توانائی کی تجزیہ کرنے والی فرم وندنا ہری نے بی بی سی کو بتایا، ہم توقع کرتے ہیں کہ روسی خام تیل کا استعمال ان دو ممالک (انڈیا اور چین) تک محدود رہے گا، جو کہ بھاری رعایت کو برقرار رکھے گا‘انڈیا کے آئل ریفائنرز اپنے منافع کے مارجن کو زیادہ سے زیادہ بڑھاتے رہیں گے‘ لیکن اگر پابندیاں ہٹا دی جائیں تو وہ صرف اپنی معمول کی خام خوراک پر واپس جائیں گے۔