مزدوروں کے حقوق: تلخ حقائق

معلومات کے برق رفتار تبادلے کا مظہر ’ٹیکنالوجیکل انقلاب ہے‘ جسے خاموش انقلاب بھی کہا جاتا ہے‘ نہ صرف موجودہ عہد بلکہ انسانی سوچ کی ترقی کا بھی بڑا اثاثہ ہے اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے عروج نے فطرت اور کام کاج کی جگہوں کو بدل کر رکھا دیا ہے ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ نے اِس بدلتے ہوئے تناظر اور منظرنامے میں مزدوروں کے حقوق کے تصور کو از سر نو تشکیل دینے کے لئے ’بروقت‘ گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جس میں مزدوروں کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے قیمتی اظہار خیال کیا گیا اور اِس پوری کوشش کو دیکھتے ہوئے یہ احساس ہوا ہے کہ مزدوروں کو درپیش مشکلات و دیرینہ مسائل کا حل زیادہ گہرائی سے نظرثانی کا متقاضی ہے یہ امر باعث تشویش اور افسوسناک ہے کہ پاکستان کی معاشی مشکلات میں جبکہ روزگار کے مواقع اور ملازمتیں محفوظ نہیں ہیں تو اِس کا دباؤ ’ٹریڈ یونین‘ پر دیکھا جا سکتا ہے جس کی رکنیت میں مسلسل کمی آ رہی ہے ایک ایسے منظرنامے میں جبکہ پاکستان میں ملازمتوں کی غیر زرعی حصہ داری دو تہائی غیر رسمی شعبے میں ہے‘ یہ بحث اور غوروخوض اپنی جگہ اہم ہے کہ کم سے کم مزدوروں کے حالات کار اور اوقات کار اُس سطح پر لائے جائیں جہاں موجودہ معاشی صورتحال سے پہلے تھے۔ مزدوروں کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے دو بنیادی خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ پہلا خدشہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت کا تعین تو کر دیا گیا ہے لیکن ایک تو یہ اُجرت مہنگائی کے تناسب سے کافی نہیں اور دوسرا مزدوروں کی اکثریت کو یہ اُجرت نہیں مل رہی۔ مزدوروں کو کم سے کم اُجرت یقینی بنانے کے لئے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے وسائل‘ قومی شناختی کارڈ کی ڈیٹابیس اور ازخود رجسٹریشن جیسے امکانات سے کیوں فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا‘ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔ وفاقی اور صوبائی بجٹ کے عمل میں مزدور و محنت کش طبقے کے لئے جن مراعات کا اعلان کیا جاتا ہے اُس کا بڑا حصہ کاروباری یا صنعتی طبقات لے جاتے ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے مزدوروں اور اِن سے متعلقہ امور کو مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کر دیا گیا ہے‘ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ وفاقی حکومت نے سال 2010ء میں لیبر پالیسی کا اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی اٹھارہویں ترمیم بھی نافذ کر دی جس میں مزدوروں کے حقوق کو وفاقی تحفظ دینے کی بجائے اِسے صوبوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ آخری لیبر پالیسی تو اعلان کی گئی اور اُس کے بعد سے کم از کم اجرت بھی مقرر کی جاتی ہے لیکن صوبے اِس سلسلے میں خودمختار ہیں جو اگر وفاق سے زیادہ بھی اجرتوں میں اضافہ کرتے ہیں تو اِس کی ادائیگی عملاً ممکن بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ ذہن نشین رہے کہ مالی سال دوہزاراکیس میں وفاقی حکومت نے کم از کم اجرت ساڑھے سترہ ہزار روپے سے بڑھا کر اٹھارہ ہزار روپے کر دی تھی جسے صوبوں نے بعدازاں بیس اور پچیس ہزار روپے تک پہنچا دیا ہے لیکن آجروں نے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے اور سپریم کورٹ نے آجروں کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعلان سہ فریقی مشاورت کے بغیر کیا گیا اِس لئے درست نہیں حال ہی میں پنجاب کی نگران حکومت نے کم از کم اجرت بتیس ہزار روپے کرنے کی منظوری دی ہے اور خاص نکتہ یہ ہے کہ اِس سلسلے میں سہ فریقی مشاورت بھی کی گئی لیکن آجروں کا دعویٰ ہے کہ جن نمائندوں سے مشاورت کی گئی وہ حکومت کے منظورنظر افراد تھے؛ اِس لئے اُنہیں ماہانہ اجرت میں یہ اضافہ قبول نہیں۔پاکستان میں مزدوروں سے متعلق کم و بیش 70 قوانین پائے جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جہاں قوانین کی بھرمار ہو‘ وہاں اِن کی وجہ سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور ’لیبر پالیسی 2010ء‘ میں وفاقی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ ”لیبر قوانین کافی پیچیدہ‘ حد سے زیادہ‘ غیر معمولی اور بعض غیرضروری بھی ہیں کو اکثر اوقات کسی مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اُسے زیادہ مشکل (ناقابل حل) بنا دیتے ہیں‘ اس کے علاؤہ مسائل سے نمٹنے والوں کے لئے الجھن بھی پیدا ہوتی ہے۔ مزید برآں‘ جرائم اور احکامات کی عدم تعمیل کے لئے مقررہ سزائیں بھی زیادہ سخت نہیں ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ قوانین آزادی سے پہلے کے عرصے میں بنائے گئے تھے۔ لیبر قوانین کی تعداد کم کرنے اور اِن پر نظرثانی کرتے ہوئے اِنہیں معقول بنانے کی ضرورت ہے‘ وفاق سے صوبوں کو مزدوروں کے معاملات منتقلی کے بعد سے جو قانون سازی ہوئی ہے اُس میں صرف قوانین کی نقل یعنی کاپی پیسٹ کیا گیا ہے جبکہ پنجاب اور سندھ نے اپنی اپنی لیبر پالیسیاں ایک جیسی ہی رکھی ہیں لیکن مزدوروں کے حالات ایک جیسے نہیں۔ سندھ لیبر پالیسی میں ون ونڈو آپریشن کے ساتھ قوانین کی تعداد کم کرنے کا جو وعدہ کیا گیا ہے اُسے عملی جامہ پہنانے کے لئے پیشرفت نہایت ہی سست ہے۔ اِس صورتحال میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی نظریں پنجاب و سندھ جیسے بڑے صوبوں پر لگی ہوئی ہیں کہ اگر اُن کے ہاں مزدوروں کے لئے قانون سازی کرتے ہوئے ’ون ونڈو آپریشن‘ شروع کیا جاتا ہے تو اِس کا من و عن اطلاق کر لیا جائے گا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد سے ’اِیمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشنز اور ’ورکرز ویلفیئر ٹیکس‘ جیسے قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے مزدوروں کے لئے مشکلات ہیں جو دوسرے صوبوں میں ملازمت کرتے ہیں اور انہیں اپنی ملازمتی مدت کے اختتام پر پنشن و دیگر ملازمتی فوائد کے حصول کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ مزدوروں کے حالات اور اوقات کار سے متعلق اخلاقی ذمہ داریاں اپنی جگہ لیکن پاکستان نے کئی ایک متعلقہ عالمی معاہدوں کی بھی توثیق کر رکھی ہے جن کی روشنی میں مزدور کو اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُجرت اور ملازمتی تحفظ ملنا چاہئے لیکن برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ ”ہیں تلخ بہت بندہئ مزدور کے اوقات!“۔