ایسے حالات میں کہ جب مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے اور معاشی مشکلات نے عام آدمی کی زندگی کو براہ راست متاثر کیا ہے، یہ غیرمعمولی صورتحال ماضی کے برعکس اِس مرتبہ تنخواہ دار ملازمین کی اکثریت کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً چالیس لاکھ نوجوانوں کو ملازمت کی ضرورت ہوتی ہے جن میں سے صرف دس لاکھ افراد ہی کے لئے ملازمتوں کا بندوبست ہو پاتا ہے۔ اس ماحول میں جہاں نوجوانوں کی اکثریت بیروزگار ہے اور حکومت کی جانب سے روزگار کی خاطرخواہ فراہمی نہیں ہو رہی تو نوجوانوں کو اپنی مدد آپ کے تحت کاروبار اور برسرروزگار ہونے کے لئے مدد فراہم کی جانی چاہئے۔ نوجوانوں کے لئے آن لائن کمائی کے لئے ”اپ ورک“ اور ”فیور“ جیسے پلیٹ فارمز موجود ہیں جن کے ذریعے وہ منافع بخش کیریئر کا آغاز کر سکتے ہیں لیکن اِس کے لئے کم قیمت اور قابل بھروسہ انٹرنیٹ چاہئے ہوتا ہے۔ ”فری لانسرز“ بننے کے لئے نوجوانوں کی تربیت کا اہتمام اپنی جگہ ضروری ہے تاکہ وہ مختلف ’متنوع شعبوں‘ میں مہارت حاصل کر سکیں اور ’آن لائن‘ جاب مارکیٹ کی مطابق خود کو ڈھال سکیں۔
پاکستان میں آن لائن ’فری لانس خدمات‘ کی فراہمی بحرانی دور سے گزر رہی ہے‘ یہ شعبہ ماضی میں کبھی بھی اِس قدر غیریقینی کا شکار نہیں رہا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شورش زدہ معیشت کا مقابلہ کرنے کی اِس میں صلاحیت موجود ہے اور اگر حکومتی سطح پر ’فری لانسنگ‘ کو توجہ دیتے ہوئے ہنرمندی اور فنی و تکنیکی تربیتی نصاب میں ’فری لانسنگ‘ شامل کی جائے تو اِس سے خاطرخواہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ جس طرح ٹیکنیکل ادارے بجلی لکڑی اور تعمیراتی کاموں کی تربیت دیتے ہیں بالکل اِسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں کا تعارف اور اِن میں ’فری لانسنگ‘ کے ذریعے روزگار کے مواقعوں بارے خواندگی دینے کی ضرورت ہے کیونکہ نا موافق حالات کے باعث آن لائن روزگار کے مواقع (فری لانسنگ) بھی پاکستانیوں کے لئے محدود ہو رہے ہیں۔ حکومت اگر نوجوانوں کے لئے ہر سال حسب تعداد ملازمتوں کا اضافہ نہیں کر سکتی تو کم سے کم ’قلیل مدتی معاہدوں‘ یا فری لانسنگ کے ذریعے روزگار کے مواقعوں سے استفادہ کرنے میں مدد ضرور دے سکتی ہے۔ فری لانسنگ ورکنگ فریم ورک اُس وقت سے موجود ہے جب سے کاروباری اداروں نے عارضی یا وقتی کارکنوں کو بھرتی کرنا شروع کیا۔ بنیادی طور پر‘ ہر فرد جو ’گیگ اکانومی‘ کا حصہ بنتا ہے وہ ایک ذمہ داری (اسائمنٹ) ادا کرنے کے بعد دوسری اور اُس کے بعد تیسری ذمہ داری پوری کرتا چلا جاتا ہے۔ گگ اکانومی (فری لانسنگ) پاکستان میں اُبھرتا ہوا شعبہ ہے۔ جس سے وابستہ پاکستانی نوجوانوں نے سال 2021ء اور سال 2022ء میں متواتر 40 کروڑ ڈالر کمائے اور یہ پندرہ ارب ڈالر کی آئی سی ٹی (انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی) برآمدات کا تقریبا چھ فیصد ہے۔ ایک ایسے منظرنامے میں جبکہ بے روزگاری کی شرح تشویش حد تک زیادہ ہو اور پاکستان کی چونسٹھ فیصد آبادی کی عمریں تیس سال سے کم ہوں تو ’گگ اکانومی ماڈل‘ خوش آئند حل ثابت ہوسکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ہے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو این ڈی پی) اور نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ (این ایچ ڈی آر) میں دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں پندرہ سے اُنتیس سال کی عمر کے نوجوان ملک کی کل لیبر فورس کا 41.6 فیصد ہیں۔ آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ (او آئی آئی) کی جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کو عالمی ڈیجیٹل گگ مارکیٹ میں چوتھے نمبر پر رکھا گیا ہے اور یہ سالانہ 50 کروڑ (500 ملین) ڈالر کمائی کا ذریعہ ہے۔ اِسی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان میں ’فری لانسنگ‘ بڑھنے کا تناسب زیادہ اور امکانات روشن ہیں لیکن اگر نوجوانوں کی تربیت اور اُنہیں انٹرنیٹ جیسی سہولت معیاری و تیزرفتار شکل میں فراہم کی جائے اور فری لانسنگ کرنے والوں کے لئے بینکاری کے شعبے میں مراعات و آسانیاں متعارف کروائی جائیں تو اِس سے قومی خزانے پر بوجھ کم ہوگا اور فری لانسنگ سے حاصل ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے چنگل سے نجات حاصل کرنے کا باعث بھی بنے گا۔ گزشتہ چھ برس کے اعداد و شمار سے عیاں ہے کہ پاکستان میں ’گیگ اکانومی (فری لانسنگ)‘ کے بے پناہ امکانات لیکن اگر درست پالیسیوں اور حوصلہ افزائی کی جائے تو آن لائن سروسز (خدمات) میں پاکستان ’بڑا برآمدکنندہ‘ بن سکتا ہے۔