قرآن مجید دعوت فکر و عمل کا نام ہے اور اِسے سمجھنے کے لئے ’عربی زبان‘ کے رموز سے آشنا ہوئے بغیر ممکن نہیں کہ اُس پیغام کو سمجھا جا سکے جو صرف قرآن پر ایمان رکھنے والوں (مسلمانوں) ہی کے لئے ِہدایت کا باعث نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح و نجات کا لائحہ عمل (مجموعہئ حیات) ہے۔ ’قرآن شناسی‘ کے تناظر میں ’فہم و فراست‘ سے متعلق ایک موضوعاتی نشست میں جن بنیادی سوالات کا مختلف زاوئیوں سے جائزہ لیا گیا اُن کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کیا ”ہم میں نے کبھی کوئی ایسی کتاب پڑھی ہے‘ جس کی زبان اور الفاظ ہماری سمجھ سے بالاتر ہوں؟“ یہ انتہائی تشویش اور غور و فکر کی بات ہے کہ آسمانی صحیفوں (نازل شدہ کتب) یا غیر نازل شدہ کتابوں میں قرآن سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اور اس کی تلاوت کرنے والے کو ایک ایک حرف پر بے پناہ ثواب ملتا ہے یعنی قرآن کی تلاوت بذات خود نیکیوں کا ایک خزانہ ہے‘ لیکن ضرورت قرآن کریم کے متن پر بھی غور کرنے کی ہے لیکن اِس سلسلے میں خاطرخواہ کوشش و محنت دیکھنے میں نہیں آتی۔ آخر وہ کونسا موضوع ہے جس کا احاطہ قرآن مجید نے نہیں کیا۔ جن لوگوں کے پاس ’وقت (فرصت) نہیں‘ لیکن وہ گھنٹوں انٹرنیٹ یا ٹیلی ویژن کے ذریعے تفریح میں مشغول دکھائی دیتے ہیں اگر ’قرآن شناسی‘ کو اپنے معمولات کا حصہ بنا لیں تو ایک ایسی ’بامقصد و مطمئن (ایمان افروز) زندگی‘ کا لطف اُٹھا سکتے ہیں‘ جس کا مزا (ذائقہ) اُنہوں نے چکھا نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید پڑھنے کے خصوصی آداب ہیں‘ جو اِسے دیگر کتب سے ممتاز بناتے ہیں اور اِن آداب کا بنیادی مقصد اِس ’توجہ سے پڑھنا‘ ہے کہ متن و پیغام پر غور ہو۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید کو اپنی سہولت یا اپنی کسی ضرورت اور مقصد کے لئے نہیں بلکہ ”زندگی کے لازم“ کے طور پر پڑھا جانا چاہئے۔ جس طرح کوئی طالب علم اسلامیات کے لازمی مضمون کو توجہ سے پڑھتا ہے تاکہ وہ امتحان میں ’کامیاب‘ ہو سکے بالکل اِسی طرح ’نصاب تعلیم‘ کے علاوہ بھی قرآن مجید سے ’لازمی کتاب‘ کے طور رجوع کرنا چاہئے اور یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اگر قرآن مجید کو معمولات زندگی کے ساتھ لازم و ملزوم کر دیا جائے تو بہت سی پریشانیاں اور مشکلات پیش ہی نہیں آئیں گی۔ جس کسی نے قرآن مجید سے اپنا تعلق قائم کیا اور اِسے روزانہ کی بنیاد پر سمجھ کر پڑھنے کو اپنا معمول بنایا تو قرآن مجید (ایک زندہ کتاب اور ایک زندہ حقیقت ہونے کی وجہ سے) اپنے
پڑھنے والے کے ساتھ تعلق بنا لیتی ہے اور اِس لذت سے آشنا ہونے والوں کے دوسری کوئی بھی لذت پھر معنی نہیں رکھتی۔ پانچویں اہم بات یہ ہے کہ کم و بیش ہر نوجوان کے ہاتھ میں ’سمارٹ فون‘ ہوتا ہے اور اگر موبائل فونز (سافٹ وئرز) کے ذریعے ’قرآن شناسی‘ عام کی جائے تو اِس سے نوجوانوں کی توجہات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر منحصر ’اینڈروئیڈ‘ یا دیگر فونز کی بدولت ممکن ہے کہ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ قرآن مجید کے حرف حرف ترجمے‘ مطالب و تفاسیر تک رسائی حاصل کی جا سکے جبکہ قرآن مجید سے متعلق علمائے کرام کے تاکیدی خطبات (لیکچرز) سننے سے بھی فائدہ ممکن ہے جو دینی امور میں اپنی سالہا سال کی محنت (خوروخوض) اور ’قرآن فہمی‘ کو سیاق و سباق کی تفہیم کے مطابق آسان بنا کر پیش کرتے ہیں۔ چھٹی اہم بات نوجوانوں باشعور ہیں لیکن اُن کے شعور کی سمت درست کرنے کے لئے اُس لب و لہجے اور اسلوب میں رہنمائی کا خاطرخواہ بندوبست نہیں جو اِنہیں ’قرآن مجید‘ سے جوڑ دے۔ سوشل میڈیا چینلز کے ذریعے خود روزگار تلاش کرنے والے اگر ’قرآن مجید‘ کے اسباق و تبلیغات کی جانب متوجہ ہوں تو
اِس میں دین و دنیا کی بھلائی پوشیدہ ہے۔ قرآن مجید موضوعات کا خزانہ (گنجینہئ معانی) ہے۔ اِس میں طب و صحت سے لیکر کائنات کی تخلیق و تشکیل کے راز پوشیدہ ہیں۔ ہمارا نوجوان یہ تو جانتا ہے کہ ’سٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ میں لکھا کہ ”کائنات پھیل رہی ہے“ اور اِس نظریئے کو دنیا نے انقلاب قرار دیا لیکن یہی بات قرآن مجید میں سینکڑوں برس قبل محفوظ کر دی گئی کہ ”ہم نے آسمان (کائنات) کو طاقت کے ساتھ بنایا ہے اور بیشک ہم اِسے پھیلانے والے ہیں۔“ (تخلیق کائنات سے متعلق علوم میں تجسس اور غوروفکر کرنے والے قرآن مجید کی 47ویں سورہئ مبارکہ الذارت کی آیت مبارکہ 47 کا بھی مطالعہ کریں۔) ساتویں اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں خاطرخواہ غور نہ ہونے کی وجہ سے جب بھی کوئی نیا سائنسی نظریہ پیش کیا جاتا ہے اور اُسے قرآن مجید میں تلاش کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو پہلے ہی سے وہاں موجود (مذکور) تھا لہٰذا صرف ایمان و ایمانیات ہی کے زاویئے سے نہیں بلکہ علوم کے منبع ہونے جیسی خصوصیت کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے (سائنسی بنیادوں پر) قرآن مجید میں تحقیق ہونی چاہئے۔ سائنسی نتائج کو قرآنی وحی سے ہم آہنگ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نوجوانوں کو قرآن کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ آیات کریمہ کے متن میں بیان (پنہاں و پوشیدہ) سائنسی نظریات تک رسائی (و جانکاری) حاصل کر سکیں۔ آٹھویں اہم بات یہ ہے کہ قرآن شفا ہے‘ قرآن دوا ہے اور قرآن روحانیت سے بھرپور ہے، بلکہ ہر لمحہ‘ قدم بہ قدم ’عمل‘ کی کتاب ہے جس کے ذریعے دنیا و آخرت میں فلاح و نجات ممکن ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ’رموز بیخودی‘ میں ’قرآن مجید‘ کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کی‘ جس سے تین اشعار کا انتخاب غورطلب ہے۔ ”تو ہمی دانی کہ آئین تو چیست؟…… زیر گردون سرتمکین تو چیست؟ (تو جانتا ہے کہ تیرا آئین کیا ہے؟ آسمان کے نیچے تیری بادشاہت اور شان و شوکت کا راز کیا ہے؟) آن کتاب زندہ قرآن حکیم …… حکمت او لایزال است و قدیم (وہ قرآن حکیم ہے جو کہ زندہ کتاب ہے اور اِس کی حکمت لازوال اور قدیم (آزمودہ) ہے۔) ”گر تو می خواہی مسلمان زیستن …… نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن (اگر کوئی مسلمان چاہتا ہے کہ وہ معنوی طور پر زندہ رہے تو یہ ہدف قرآن مجید کے مطابق زندگی بسر کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔)