پشین بارڈر: مستقل مزاجی

اسلامی جمہوریہ پاکستان اور جمہوری اسلامی ایران کے درمیان باضابطہ دوطرفہ تجارت کے حجم میں اضافے کے لئے متعدد اقدامات پر اتفاق ’خوش آئند‘ ہے جس کے تحت آئندہ چند روز میں (باضابطہ طور پر اٹھارہ مئی دوہزار تیئس سے) ’پشین سرحد‘ تجارت کیلئے کھول دی جائے گی۔ یہ اِس قدر اہم پیشرفت ہے کہ ’پشین سرحد‘ کھولنے کے موقع پر تقریب میں وزیر اعظم پاکستان اور ایران کے صدر کی شرکت متوقع ہے اور انتظامات جاری ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان سرحد کی کل لمبائی 909کلومیٹر (565 میل) ہے جس پر ’پشین سرحد (پاک ایران تجارتی راہداری) شمال مغرب میں واقع ہے اور یہ جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے بھی انتہائی اہم سرحدی علاقہ ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کی جانب ’پشین بارڈر ریجن‘ میں 9 سرحدی مارکیٹیں کھولنے کی منظوری دی تھی۔ مذکورہ سرحدی راہداری جس کا سرکاری نام ’مند پشین کراسنگ‘ ہے صوبہ بلوچستان اور ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان سے متصل ہے۔ ایران نے اپنی حدود میں ’700 کلومیٹر طویل‘ 10فٹ بلند اور 3 فٹ موٹائی والی خاردار دیوار تعمیر کی ہے۔پاکستان اور ایران کے درمیان کوئی سرحدی تنازعہ نہیں اِسی وجہ سے پاکستان کے دفتر خارجہ نے سات سو کلومیٹر طویل اِس دیوار کی تعمیر کو ایران کا داخلی معاملہ قرار دیا اور دفتر خارجہ کا یہ بیان آن دی ریکارڈ موجود ہے کہ پاکستان کو ایران کی جانب سے دیوار تعمیر کرنے پر اعتراض نہیں کیونکہ یہ ایران کی اپنی حدود میں ہے۔پشین سرحد کھولنے کا مقصد دو ہمسایہ ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کو فروغ دینا اور ایران سے غیر قانونی طور پر درآمد ہونے والی اشیا جن میں پیٹرولیم مصنوعات سرفہرست ہیں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ توقع ہے کہ پشین سرحد کھلنے سے سامان اور لوگوں کی آسانی سے نقل و حرکت ممکن ہوگی اور اقتصادی تعاون میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ ایرانی مجلس کے کمیشن آف نیشنل سیکیورٹی اینڈ فارن پالیسی کے چیئرمین وحید جلال زادہ اور وفاقی وزیر برائے تجارت سید نوید قمر کے درمیان ہونے والی ملاقات میں فریقین نے سرحد کھولنے کے حوالے سے رسمی کاروائیوں اور انتظامات پر تبادلہ خیال کیا تھا جس کا نتیجہ سرحد کھولنے کی صورت برآمد ہوا ہے۔ پشین بارڈر کو قانونی تجارت کے لئے کھولنا دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور رابطے کو فروغ دینے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘ توقع ہے کہ اس اقدام سے دونوں ممالک کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے‘ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور علاقائی استحکام میں مدد ملے گی جبک پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں بھی کچھ کمی آئے گی۔ یہ سرحدی گزرگاہ بنیادی طور پر تازہ پھلوں اور سبزیوں کی تجارت کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ پاک ایران سرحد پر کئی غیر رسمی گزرگاہیں ہیں۔ یہ غیر رسمی کراسنگ بنیادی طور پر اسمگلروں کے 
زیراستعمال ہیں اور اِن کے راستے تیل‘ کھانے پینے کی اشیا وغیرہ جیسے سامان کی نقل و حمل کی جاتی ہے‘ پاکستان اور ایران کے درمیان قانونی ذرائع سے تجارت کے مقابلے غیرقانونی طریقوں سے تجارت کا حجم زیادہ ہے‘ اب تک ہوئے اجلاسوں میں پاک ایران حکام کے درمیان پائے جانے والے اتفاق رائے میں جن اشیا کی تجارت پر اتفاق ہوا ہے اُن میں شہری ہوا بازی کیلئے سازوسامان (ایوی ایشن) اور عمومی تجارت کے دیگر شعبوں میں تعاون شامل ہے جبکہ دونوں ممالک تجارت کیلئے نئی راہیں تلاش کرنے پر بھی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں‘ ایران سے تجارت اِسلئے بھی پاکستان کے مفاد میں ہے کہ ایک تو اِس کا انحصار امریکی ڈالر پر نہیں اور دوسرا ایک پاکستانی روپیہ ’146 ایرانی ریالز‘ جبکہ ایک امریکہ ڈالر ’42 ہزار 250 ایرانی ریالز‘ کے مساوی ہے یعنی پاکستان کی کرنسی ایران کے مقابلے مضبوط ہے‘ اہم بات یہ بھی ہے کہ ایران کیساتھ سرحد کھولنے سے صرف تجارت ہی نہیں بلکہ مسافروں اور تاجروں کی آمدورفت بھی متوقع ہے جبکہ دونوں ممالک نے سفری و کاروباری مواقع بڑھانے کیلئے براہ راست پروازیں شروع کرنے کی تجویز کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ ایران اِس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کر سکے لیکن اُس کی جانب سے اشیائے خوردونوش بالخصوص زرعی پیداوار‘ موسمی سبزی‘ پھل‘ کھجور اور زیتون کی پاکستان میں 
مانگ ہے‘ دو بنیادی بات یہ ہے کہ ہمسایہ ممالک کے درمیان تجارت کو جس قدر بھی فروغ دیا جائے یہ کم ہی رہتی ہے‘ قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایران کیلئے براہ راست پروازوں کی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے تجارت کو آسان بنانے اور عوامی سطح پر رابطوں اور وفود کے تبادلوں کو فروغ دینے کی حمایت کی گئی ہے‘ پاکستان اور ایران کے درمیان دسمبر 2017ء سے زیرالتوأ منصوبہ ’ایران پاکستان گیس پائپ لائن‘ ہے جو 2 ہزار 775 کلومیٹر طویل پائپ لائن ہے اور یہ ’56 ڈایامیٹر‘ کی پائپ لائن ایران کی سرحد تک بچھا دی گئی ہے لیکن پاکستان کی جانب سے عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہو سکا ہے اور دونوں ممالک کے حکام کے درمیان ہوئی ملاقاتوں میں اِس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے حوالے سے بھی تبادلہئ خیال ہوا ہے‘ پاکستان کو کم قیمت تیل و گیس اور بجلی کی فوری ضرورت ہے جبکہ عالمی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کیساتھ علاقائی تجارت ایران کے اقتصادی مفاد میں بھی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے قرض حاصل کرنے میں تاخیر کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا حل ایران کے ساتھ تجارت میں تلاش کرنا اگر تو وقتی اقدام ہے تب بھی اِس سے پاکستان کی معیشت کو سہارا مل سکتا ہے تاہم پائپ لائن منصوبے کی تکمیل مستقل و پائیدار حل اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو ایک نئی بلندی پر لے جائے گا اور اِس سے دونوں ممالک خاطر خواہ فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ پاک ایران تجارت کا موجودہ قانونی و غیرقانونی حجم 2 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جو یقینا ناکافی ہے اور اِس حوالے سے ہوئے ہوئے مذاکرات میں ایران کی جانب سے مذاکرتی ٹیم کے چیئرمین جلال زادہ نے اسے بڑھانے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان کے وزیر تجارت نے بھی ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا اور نئی سرحدی راہداریاں اور منڈیوں قائم کرنے‘ زیادہ سے زیادہ تجارتی تبادلے کو آسان بنانے اور ’بارٹر ٹریڈ سسٹم‘ کے نفاذ کی اہمیت پر زور دیا لیکن اِس قسم کے زریں خیالات تجارت کے فروغ کے لئے پاک ایران مذاکرات میں دونوں فریقین سے سننے میں آتے ہیں تاہم اِن پر خاطرخواہ عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آتا۔ وقت ہے کہ پاکستان ایران جیسے ہمسایہ ملک سے تجارتی روابط کو فروغ دے۔ ایران کی سرحد وسطی طور پر بلوچستان اور پنجاب جبکہ مشرقی و شمال مغربی سمت میں سندھ و خیبرپختونخوا سے قریب ہے۔ پاک ایران تجارتی بات چیت کے اگلے مرحلے میں مزید دوطرفہ تعاون بالخصوص تجارت کے شعبے میں تعلقات کے فروغ دینے کے لئے ایران اور پاکستان کا مشترکہ عزم دونوں ممالک کے مفاد میں ہے اور اِس پر پاکستان کی جانب سے مستقل مزاجی کے ساتھ عمل درآمد ہونا چاہئے۔