آئندہ پانچ سال 

اقوام متحدہ نے ’موسمیاتی تبدیلی‘ سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ بات یقینی دکھائی دے رہی ہے کہ سال 2023ء سے سال 2027ء کا عرصہ (پانچ سال) کرہئ ارض کے لئے ’گرم ترین‘ دورانیہ ہوگا کیونکہ گرین ہاؤس گیسوں اور ایل نینو نامی موسمیاتی تبدیلی کے ملاپ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ اس بات کے دو تہائی امکانات ہیں کہ اگلے پانچ برس میں موسمیاتی تبدیلی روکنے سے متعلق ممالک کے عزم (پیرس معاہدے) میں طے کردہ ہدف حاصل نہیں ہو پائیں گے جبکہ سال دو ہزار پندرہ اور سال دوہزاربائیس کا درمیانی عرصہ (بالخصوص دوہزارسولہ) دنیا کے لئے گرم ترین سال تھا اور یہ عمل رکا نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی تیزی سے رونما ہو رہی ہے جس کا اظہار ’درجہئ حرارت‘ کی صورت دیکھا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ اس بات کا اٹھانوے فیصدی امکان ہے کہ اگلے پانچ سال گرم ترین ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ سال اٹھارہ سو پچاس اور سال اُنیس سو کے درمیان (پچاس برس کے دوران) دنیا کا اوسط کا درجہئ حرارت دو ڈگری سنٹی گریڈ تھا۔ سال دوہزارپندرہ میں کئے گئے مذکورہ ’پیرس معاہدے‘ کے تحت دنیا کے صنعتی و غیرصنعتی ممالک نے مل بیٹھ کر ’گلوبل وارمنگ‘ سے نمٹنے کے لئے ایک معاہدے پر دستخط کئے اور اتفاق کیا کہ عالمی درجہئ حرارت کو سال اُنیس سو کی سطح پر لانے کے لئے انفرادی سطح پر اور مل جل کر اقدامات کئے جائیں گے۔ اِس سلسلے میں تعاون کا پیمانہ یہ رکھا گیا کرہ ارض کے اوسط درجہئ حرارت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ کی سطح پر واپس لایا جائے اور اگر ممکن ہو تو اِسے ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کیا جائے لیکن ’پیرس معاہدے پر ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے خاطرخواہ گرمجوشی سے عمل درآمد نہیں ہوا جبکہ پاکستان کی طرح ترقی پذیر ممالک کا مطالبہ ہے کہ پیرس معاہدے کے تحت کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ ’ڈبلیو ایم او‘ کا کہنا ہے کہ اس بات کا چھیاسٹھ فیصد امکان ہے کہ دنیا کے اوسط درجہئ حرارت میں کمی کی بجائے اِس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوگا۔ ڈبلیو ایم او کے سربراہ پیٹری تالس کا کہنا ہے کہ دنیا کو خبردار کر دیا گیا ہے اور اُمید ہے کہ اِس تنبیہ کو خاطرخواہ سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ’گرمی کی شدت‘ میں اضافہ ہے اور اِس ایک وجہ سے بہت ساری ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن سے زراعت اور انسان و ہم زمین جاندار کی بقا خطرے سے دوچار ہے کیونکہ اِن موسمیاتی عوامل کے صحت‘ غذائی تحفظ‘ پانی کے انتظام اور ماحولیات پر دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن سے نمٹنے کے لئے دنیا کو تیار رہنے کی ضرورت ہے۔’ال نینو‘ وسطی اور مشرقی استوائی بحر الکاہل (سمندر) کی سطح کے درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافے کا نام ہے اور موسمیاتی درجہئ حرارت میں اضافے کا یہ عمل عموماً ہر دو سے سات سال میں ہوتا ہے۔ عام طور پر ’ال نینو‘ کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور معمول کے مطابق اِس کا آئندہ متوقع سالانہ چکر سال دوہزارچوبیس میں ظاہر ہوگا۔ موسم کے بارے میں اقوام متحدہ کی پیش گوئی سے پتہ چلتا ہے کہ صنعتی ممالک اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ رہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ صنعتی ممالک کی غلطیوں کا خمیازہ پاکستان جیسے غیرصنعتی ممالک اُٹھا رہے ہیں۔ دنیا ایک گھر اور مشترک ذمہ داری ہے اور اِس ذمہ داری کی ادائیگی کی جانب متوجہ کرنے کے باوجود بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کیا جا رہا اور ممالک اپنی صنعتی پیداوار جاری رکھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت محدود کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ پہلے سے زیادہ غلط اقدامات کی صورت خودکشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر پیرس معاہدے کے مطابق ماحول دشمن اقدامات سے گریز کرتے ہوئے عمل درآمد کیا جائے اب تک ہوئی موسمیاتی تبدیلی کو روکنے اور ماحول کی بہتری کے لئے سال دوہزارساٹھ کی دہائی تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ کرہئ ارض کا درجہئ حرارت بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسی گیسیں اور دھواں فضا میں جمع ہوتا رہتا ہے اور پھر یہ اِس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ سورج کی روشنی کرہئ ارض کی سطح پر ہر شے کو گرم کرنا شروع کر دیتی ہے اور سورج سے آنے والی حرارت بھی فضا میں موجود رہتی ہے۔ اِن مضر ماحول گیسیوں کو ’گرین ہاؤس گیسیں‘ کہا جاتا ہے جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ شامل ہیں۔ کرہئ ارض کے درجہئ حرارت کو معمول پر لانے میں ہزاروں سال بھی لگ سکتے ہیں کیونکہ پہلے ہی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار حد سے زیادہ موجود ہے اور ہم برفانی تودوں (گلیشیئرز) کے پگھلنے اور سمندری سطح کے معمول کے درجہئ حرارت کو کھو چکے ہیں! یہ المیہ اپنی جگہ موجود ہے کہ دنیا کا ہر ملک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہوئے نقصانات کو کسی نہ کسی صورت میں دیکھ رہا ہے لیکن اِس کی بہتری یا اِس معمول پر لانے کے لئے سنجیدگی کا عملاً مظاہرہ نہیں ہو رہا۔ موسمیاتی اعدادوشمار سے عیاں ہے کہ اُنیس سو ساٹھ کی دہائی کے بعد سے عالمی سطح اور سمندری سطح کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے اور اِس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اِس درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی تائید کرتے ہوئے برطانیہ کے محکمہ موسمیات نے بھی دنیا کو گرمی کا سامنا کرنے سے خبردار کیا ہے۔ برطانیہ کی ’قومی موسمیاتی سروس‘ کا کہنا ہے کہ ”موسمیاتی تبدیلی پر کوئی ایک ملک انفرادی حیثیت سے قابو نہیں پا سکتا لیکن اگر دنیا متحد ہو کر عمل (ایکشن) کرے تو صرف موسمیاتی بہتری ہی نہیں بلکہ غذائی تحفظ کے حوالے سے بہت کچھ دیگر بھی ممکن ہے۔ سب سے پہلی ضرورت گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کرنا ہے کیونکہ اِس کے انتہائی اور فوری اثرات کا مقابلہ کئے بغیر انسانی عقل و فہم اور علم و تحقیق خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی۔