نظام کی تبدیلی وقت کی پکار

پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل کا واحد حل نظام میں تبدیلی ہے۔ آنے والی نسلوں کیلئے بہتر مستقبل کی گنجائش پیدا کرنے کی خاطر سسٹم کو بدلنا ہوگا‘ موجودہ نظام میں عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں نہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے‘پاکستان کے اقتصادی بحران کی بنیادی وجہ کے موضوع پرلندن میں منعقدہ مذاکرے سے خطاب میں مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ہر مشکل کی بہترین چیز یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک موقع بھی لاتی ہے اور عقل مند وہ ہوتے ہیں جو اس موقع کو استعمال کریں‘ ہم شاید ڈیفالٹ نہ کریں لیکن ہم اس کی طرف جا رہے ہیں ان کا کہناہے کہ جو لوگ ریاست کو کنٹرول کر رہے ہیں وہ حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں‘جب کوئی ریاست ترقی کرنا ہی نہیں چاہتی اور وہ صرف سٹیٹس کو ہی رکھنا چاہتی ہے تو ایسی ریاست غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے‘ اس لئے پاکستانی ریاست پوری دنیا میں ان ریاستوں میں سے ہے جو سب سے زیادہ غیر موثر ہے اور اس کاطرز حکمرانی غیر عوامی ہے‘معاشی بحران سے باہر نکلنے کیلئے قوم کا بنیادی ڈھانچہ بدلنا پڑے گا۔ جب تک ہم اپناطرز حکمرانی نہیں بدلیں گے پاکستان اس بحران سے شاید کبھی بھی باہر نہ نکل سکے گا۔معاشرے کو امیر اور غریب کے دو واضح طبقات میں تقسیم کیاگیا ہے اور ایسی گہری لکیر کھینچ دی گئی ہے کہ یہ دونوں طبقے ایک دوسرے کے قریب نہیں آپاتے۔ امیر طبقہ روزبروز امیر تر اور غریب مزید غربت کے دلدل میں پھنستا جارہا ہے۔نظام تعلیم بھی اسی طبقاتی نظام کے تابع بنایاگیا ہے۔ ملک کے گنے چنے چند تعلیمی اداروں سے فارع ہونیوالے سیاست، انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ اور دیگر اہم شعبوں میں بڑے عہدوں پر براجمان ہیں اور غریب لوگ ان تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کوتعلیم دلانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے چونکہ ہمارے ملک کے دستور ساز، پالیسی ساز، اختیار و اقتدار کے مناصب پر بیٹھے لوگ امراء سے تعلق رکھتے ہیں انہیں غریب اور متوسط طبقے کے مسائل اور مشکلات کا ادراک ہی نہیں ہے‘ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے 75سال گذرنے کے باوجود غریبوں کے مسائل حل نہیں ہوئے‘ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ہمارے حکمران غریب عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے نام پر اربوں ڈالر کے قرضے لیتے رہے اور وہ قرضہ اپنی عیاشیوں پر لٹاتے رہے‘ان قرضوں کی قسطیں سود سمیت یہی غریب لوگ ٹیکسوں کی صورت میں ادا کررہے ہیں۔پاکستان کی 90 فیصد آبادی غریب عوام پر مشتمل ہے جن کے آدھے سے زیادہ بچے سکول نہیں جاسکتے ہیں‘ملک کی زراعت،صنعت، تجارت و برمدآت پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے‘سیاست بھی انہی متمول خاندانوں کی لونڈی ہے جب پارٹیاں خود غیر جمہوری ہوں گی تووہ ملک میں جمہوریت کیسے لا سکتی ہیں۔ آبادی کی شرح افزائش28 فیصد ہے جوجنوبی ایشیامیں سب سے زیادہ ہے‘بچوں کو مکمل غذا نہیں ملتی اور ان کی نشو ونما میں کمی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے پسماندہ رہ جاتے ہیں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا رہنے کے بعد وہ بچپن اور لڑکپن میں ہی موت کا شکار ہوتے ہیں‘پاکستان کا ٹیکس ریونیو رواں مالی سال تقریباً 75 سو ارب روپے حاصل ہونے کا ہدف مقرر ہے‘اس میں صوبائی حصہ60فیصد ہو گا اور 45 سو ارب صوبائی حکومتوں کو چلا جائیگا۔پاکستان نے بیرونی قرضوں پر سود کی مدد میں 65 سو ارب ادا کرنے ہیں؛ہمیں بیرونی قرضوں کا سود دینے کیلئے بھی مزید قرض لینا پڑے گاایسا اس وجہ سے ہورہا ہے کہ ہم نے اپنے بجٹ کا ڈھانچہ بدلنے کی کبھی کوشش نہیں کی پاکستان میں 22 لاکھ دکانیں ہیں جن میں سے صرف 30 ہزار دکانوں کے مالکان ٹیکس دیتے ہیں‘ سرکاری اخراجات پر قابوپانے کے بجائے ہمارے حکمران عوام سے ہی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں؛ وقت آگیا ہے کہ جو بھی ادارہ اپنے اخراجات خود پورا نہیں کرتا اسے پرائیویٹائز کیا جائے۔