مشترکہ مفادات و اہداف

شنگھائی تعاون تنظیم (اِیس سی او) کے حالیہ اجلاس کے دوران بھارت کا ایسا سرد رویہ سامنے آیاکہ دو ہمسایہ ممالک میں جس درجے دوستی ہونی چاہئے اُس سے کئی گنا زیادہ دشمنی لب و لہجے اور اقدامات میں دیکھی جا سکتی ہے اَمریکہ نے ماضی میں‘ کئی مواقعوں پر بھارت اور پاکستان کے درمیان بحرانوں میں ثالثی کا کردار ادا کیا لیکن موجودہ صورتحال میں وہ ایسا کوئی بھی مثبت کردار ادا کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بھارت کی پاکستان کے ساتھ دشمنی کا درپردہ محرک بھی امریکہ ہے جو چین کے ساتھ پاکستان کی قربت اور بالخصوص چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے بھارت کی پشت پناہی کر رہا ہے امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں کو اُس وقت تنقید کا نشانہ بنایا جب دونوں نے جوہری صلاحیت حاصل کر لی اور دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو اُس حد تک جانے نہیں دے رہا جہاں سے دو ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کے خلاف جوہری ہتھیاروں کا استعمال کریں۔ امریکہ کو اِس بات میں برتری حاصل ہے کہ اِس کا بھارت و پاکستان پر یکساں اثرورسوخ ہے اور اگر اِس ’اثر و رسوخ‘ کو استعمال کیا جائے تو ثالثی ممکن ہے لیکن امریکہ واضح طور پر ایسا نہیں چاہتا کیونکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے شروع دن سے اُس کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا ہے اور
 اب بھی ہے لمحہئ فکریہ ہے کہ کھلی آنکھوں سے شواہد دیکھنے کے باوجود بھی پاکستان کے فیصلہ سازوں  نے ہمیشہ امریکہ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی سمجھنا ہوگا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو جس ’مفاد کی عینک‘ لگا کر دیکھتا ہے اُس میں چین سے بغض اور چین کے خلاف اُس کی جاری (غیراعلانیہ) سرد جنگ ہے۔ امریکہ چین کو سرنگوں دیکھنا چاہتا ہے اور جس طرح ماضی میں اُس نے پاکستان کے کندھے پر بندوق رکھ کر ’سوویت یونین (روس)‘ کو شکار کیا تھا بالکل اُسی طرح وہ چین کے توسیع پسندانہ عزائم بصورت ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو  روکنے کیلئے پاکستان کو اِستعمال کرنا چاہتا ہے سال دوہزاراُنیس میں ’پلوامہ بحران‘ کے دوران امریکی انتظامیہ کی جانب سے بھارت کے مؤقف کی سفارتی حمایت کی گئی جس سے پاکستان کو سمجھ لینا چاہئے تھا کہ امریکہ کی غیر جانبداری پاکستان کے حق میں نہیں اور ایک ایسے وقت پر ’غیرجانبداری‘ کا ’غیرضروری‘ طور پر اظہار کیا گیا جبکہ پاکستان کو امریکی حمایت کی ضرورت تھی۔ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان امریکہ پر اعتماد کرتا ہے لیکن امریکہ کی جانب سے اِس اعتماد کو ہمیشہ ٹھیس پہنچائی گئی ہے لیکن کب تک؟امریکہ کے غیرسرکاری سیاسی و دفاعی ماہرین بشمول تجزیہ کار اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت و پاکستان کے درمیان تنازعات میں ’برداشت کی سطح‘ تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے امریکہ کے مفادات و اہداف کچھ اور ہیں وہ بالخصوص ’جنوبی ایشیا‘ میں پاکستان جیسے ممالک جن کی معیشت و اقتصادیات کو اُس نے پہلے ہی خاص منصوبہ بندی کے تحت جکڑ رکھا ہے کے ذریعے چین کے اثر و رسوخ کو پھیلنے سے روکے‘سال دوہزار بیس اور سال دوہزاربائیس میں بھارت نے متنازع وادی گلوان میں چین کے ساتھ سرحدی جھڑپیں کیں جس کے بعد سے بھارت پر امریکہ کی عنایات میں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ اِس سے قبل صرف تعاون کی حد تک بات محدود تھی لیکن اِن اقدامات اور ’امریکہ بھارت بڑھتی ہوئی دوستی‘ کی وجہ سے پاکستان کو اپنی دفاعی حکمت عملی پر نظرثانی کرتے ہوئے ’عدم تحفظ‘ کا احساس ہو رہا ہے اور وقت ہے کہ دفاع کی طرح خارجہ تعلقات پر بھی نظرثانی کی جائے۔ پاکستان کے نکتہئ نظر سے اگر کوئی بھی ملک بھارت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے تو یہ پاکستان
 کے لئے قطعی طور پر قابل قبول نہیں‘ بھارت پہلے ہی سے غیر متوازن فوجی صلاحیت میں مزید اضافہ کر رہا ہے اور ظاہر ہے کہ بھارت کی یہ صلاحیت پاکستان اور چین ہی کے خلاف استعمال کرنے کے لئے بڑھائی جا رہی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ’عدم استحکام‘ کے اِس احساس کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں جاری اسلحے کی دوڑ میں مزید اضافے ہونے کا امکان ہے۔امریکہ چین کے ساتھ الجھ رہا ہے۔ بھارتی پالیسی ساز چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں بھارت میں  جیسے جیسے عام انتخابات قریب آ رہے ہیں بھارت کی موجودہ حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘پاکستان کارڈ کا استعمال کر رہی ہے اسی پاکستان مخالف بیانئے کی بدولت بھارتیہ جنتا پارٹی نے پچھلے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی‘ پاکستان کے فیصلہ ساز امریکہ کو اِس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے کہ وہ بھارت کے مقابلے پاکستان کے تحفظات اور عدم تحفظ کے احساس کے بارے میں سوچے اور بھارت کے مؤقف کی گرمجوشی سے حمایت سے باز رہے تو ایسی صورت میں امریکہ سے پاکستان کی فوجی مدد بڑھانے کے لئے التجا کی ضرورت نہیں پڑے گی‘ برصغیر پاک و ہند کا امن صرف خطے ہی کا نہیں بلکہ عالمی امن بھی ہے‘پاک بھارت امن کو لاحق خطرات کم ترین سطح پر رکھنے کی ضرورت ہے۔