تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے سگریٹ پر عائد ٹیکس (ایکسائز ریٹس) میں نمایاں اضافے کے بعد غیر قانونی درآمد شدہ سگریٹ کی کھلے عام دستیابی کی وجہ سے ’تمباکو کی قانونی صنعت‘ کو درپیش مشکلات اِس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ بہت سی سگریٹ ساز صنعتوں نے یا تو اپنی پیداوار کم کر دی ہے یا پھر کام کاج ہی بند کر دیا ہے۔ اِس بارے میں ’پاکستان ٹوبیکو کمپنی (پی ٹی سی)‘ نے ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)‘ کو تحریری طور پر مطلع کیا ہے کہ کس طرح پاکستان میں سگریٹ ساز صنعت کو مشکلات درپیش ہیں اور سگریٹ کی فروخت میں وقت کے ساتھ کمی آ رہی ہے جس کے باعث ’پی ٹی سی‘ نے اپنے چار پیداواری یونٹس (کارخانے) بند کر دیئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کو جاری کرنے والے ایک حقائق نامے میں ’پی ٹی سی‘ نے اِس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ تمباکو کی قانونی صنعت کو درپیش مشکلات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سگریٹ کی فروخت میں ’شدید کمی‘ آئی ہے اور ایسا اِس وجہ سے نہیں کہ تمباکو نوشی کم ہوئی ہے بلکہ مقامی طور پر تیار ہونے والی سگریٹ کے مقابلے غیر قانونی درآمد شدہ سگریٹ کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ فروری دوہزارتیئس میں سگریٹ پر عائد ایکسائز کی شرح میں اضافہ کیا گیا جس کے بعد اسمگل شدہ سگریٹ کی(کم قیمت ہونے کی وجہ سے) زیادہ فروخت ہونا شروع ہو گئی ہے! ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ دوہزارتیئس میں تمباکو کی قانونی صنعت کی پیداوار کے حجم میں ’پچاس فیصد‘ جیسی غیرمعمولی کمی دیکھی گئی۔ سگریٹ کی بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) میں بھی مجموعی طور پر کمی دیکھی گئی ہے جو قریب پچیس فیصد بتائی جا رہی ہے اور یہ تمباکو کی صنعت میں ہونے والی گراوٹ کا نصف ہے۔ یہ منفی اثر پورے سال برقرار رہا ہے‘ قانونی تمباکو کی صنعت کو جون 2022ء سے مارچ 2023ء کے درمیانی عرصے کے دوران‘ سگریٹ کی پیداوار میں 24 فیصد کمی آئی۔ ٹیکسوں کی وجہ سے مقامی سگریٹ کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے صارفین نے سستا متبادل خریدنا شروع کر دیا ہے۔ اسمگل شدہ سگریٹ میں وہ سگریٹ بھی شامل ہے جو پاکستان میں تیار ہو کر بیرون ملک برآمد کی جاتی ہے لیکن پھر اِسے غیرقانونی طور پر پاکستان واپس لایا جاتا ہے۔ جنوری دوہزارتیئس کے بعد سے اسمگل شدہ اور مقامی سگریٹ کے حجم میں اضافے کا نتیجہ ہے کہ غیر قانونی سگریٹ کا شعبہ کل مارکیٹ کے ساڑھے بیالیس فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے۔سگریٹ ساز صنعت کے بحران کا اثر ’زرعی شعبے‘ پر بھی پڑتا ہے۔ سال دوہزاربائیس تیئس کے عرصے میں پاکستان کی قانونی سگریٹ ساز صنعتوں نے کل 41.4 ارب سگریٹ بنائے جبکہ 41.6 ارب سگریٹ غیرقانونی طور پر درآمد کر کے فروخت کئے گئے۔ رواں مالی سال (دوہزارتیئس چوبیس) سے متعلق اندازہ ہے کہ سگریٹ سازی مزید کم ہو گی کیونکہ تمباکو کی صنعت پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) میں حالیہ اضافے کی وجہ سے قانونی طور پر تیار ہونے والی سگریٹ کی تیاری و فروخت میں کمی آئے گی اور غیرقانونی سگریٹ کا استعمال بڑھ کر 53 ارب سگریٹس سالانہ تک پہنچ جائے گا۔ سگریٹ ساز صنعت اِن اعدادوشمار سے بھی اتفاق نہیں کرتی کہ پاکستان میں غیرقانونی سگریٹ کا استعمال 9 سے 18فیصد کے درمیان ہے جبکہ وہ اِسے پچاس فیصد سے زیادہ بتاتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ جب ہم اسمگل شدہ سگریٹ کی بات کرتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صرف سگریٹ ساز صنعتوں ہی کو نہیں بلکہ قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ غیر قانونی شعبے کی وجہ سے ہونے والے ٹیکس نقصانات ملکی تاریخ میں پہلی بار بلند ترین سطح پر ہیں۔ اگر سگریٹ ساز صنعتوں پر عائد ٹیکسوں پر نظرثانی نہیں کی جاتی اور سگریٹ کی غیرقانونی درآمد بھی نہیں روکی جاتی تو قومی خزانے اور قانونی سگریٹ ساز صنعت دونوں کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا جن سے بچنے کے لئے مشکل فیصلوں اور اُن کے عملاً اطلاق کی ضرورت ہے۔ تمباکو کی صنعت میں ’ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم‘ کا نفاذ غیر قانونی تجارت روکنے کے لئے ایک اہم اقدام تھا تاہم اِس ٹریک اینڈ ٹریس کو ملک بھر میں نافذ کرنے کی متعدد ہدایات کے باوجود یہ کام مکمل نہیں ہو سکا ہے اور بہت سے ملکی سگریٹ ساز ادارے (مینوفیکچررز) سگریٹ سازی سے متعلق قواعد و ضوابط نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال غیر قانونی مینوفیکچررز کی جانب سے کی جانے والی اشتہاری اور پروموشنل مہمات کی وجہ سے مزید خراب ہو گئی ہے‘ جو صارفین کو نقد انعامات اور پرکشش تحائف کی پیشکش کرتے ہیں جبکہ اصولاً ایسی سرگرمیاں ممنوع ہونی چاہئیں۔ ایک طرف قانونی سگریٹ ساز ادارے ہیں جو ٹیکس ادا کرنے کے علاؤہ زرعی شعبے کو سہارا دیئے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اسمگل شدہ سگریٹ کا کاروبار ہے جو نہ تو خاطرخواہ ٹیکس دے رہا ہے اور نہ ہی زرعی شعبے کو سہارا دیئے ہوئے ہے لیکن اُسے پاکستان کی منڈی میں کام کرنے کی چھوٹ (آزادی) حاصل ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ سگریٹ کی غیرقانونی صنعت کے خلاف جارحانہ اور مؤثر مہم چلائی جائے۔ اگر سگریٹ ساز صنعتیں بند رہیں اور جیسا کہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی نے کہا ہے کہ وہ اپنے چار مینوفیکچرنگ یونٹس بند کر چکی ہے اور مشینوں کو پاکستان سے برآمد کرنے پر غور کر رہی ہے تو اِس سے ٹیکس آمدن میں کمی کے علاؤہ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ غیر قانونی سگریٹ ساز شعبے کی توسیع پر قابو پانے کے لئے مداخلت اور قواعد کا سختی سے نفاذ بیک وقت ہونا چاہئے۔ اِس صنعت کے موجودہ معیارات کی بنیاد پر‘ اگر موجودہ حالات برقرار رہتے ہیں‘ تو اگلے سال غیرقانونی درآمدشدہ سگریٹ کا حجم قانونی سگریٹ کے مقابلے دوگنا ہو جائے گا اُور اس کے نتیجے میں قانونی صنعت اور قومی خزانے کے علاؤہ ملازمتوں و سرمایہ کاری میں کمی کی صورت پاکستان کی معیشت کو ایک ایسے وقت میں نقصانات ہوں گے جبکہ ملک سنگین معاشی مشکلات کے دور سے گزر رہا ہے۔