قرضوں کا بوجھ کم کرنے کا ایک طریقہ ’عوامی پالیسی‘ کا استعمال ہے جس کے ذریعے برآمدات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’صنعتوں کا فروغ‘ ہے‘ پاکستان کیلئے برآمدی شعبے میں ناکام کی بڑی وجہ ’ٹیکسٹائل برآمدات‘ میں کمی ہے،یہ امر باعث تشویش ہے کہ پاکستان کی آبادی میں نوجوان افرادی قوت کی حصہ داری وقت اور آبادی کے تناسب سے بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے‘ جن دیگر ممالک کو ماضی میں اِس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو اُنہوں نے 2 طرح کے اقدامات کئے‘ایک تو ٹیکنالوجی پر انحصار زیادہ کیا گیا تاکہ کم تعداد میں افرادی قوت سے زیادہ و معیاری پیداوار حاصل کی جا سکے اور دوسرا اُنہوں نے دیگر ممالک سے ہنرمند اور ذہین افراد کو اپنے ہاں شہریت دیتے ہوئے ایسی ’امیگریشن پالیسی‘ کا وضع کی‘ جو ہنرمند افرادی قوت میسر آنے کا باعث بنی‘پاکستان کو تعلیم و تحقیق کے درمیان فرق ختم کرنے اور نجی شعبے کیساتھ مل کر ایسے اداروں کی ترقی میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے جو نوجوانوں کو معیاری تعلیم اور تربیت فراہم کریں‘ اس طرح تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ نوجوان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو ترقی دے سکتے ہیں جن کی دنیا بھر میں مانگ ہے‘ چین اِس قسم کی خدمات کا ایک بڑا سپلائر ہے لیکن یہاں چند سنگین رکاوٹیں ہیں‘ امریکہ نے چین میں کمپیوٹر چپ بنانے کی صنعت کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے متعدد اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ چین میں آبادیاتی تبدیلیاں لائی گئی ہیں جس کے نتیجے میں آبادی میں اضافے کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے‘ چین کی آبادی تیزی سے عمر رسیدہ ہو رہی ہے۔نئی ٹیکنالوجیوں کی ترقی ’تین طرفہ دوڑ‘ ہے۔ اِس کا اِنحصار کمپیوٹرز چپس کے معیار پر ہوتا ہے جو ٹوسٹر چلانے سے لیکر زمین کے گرد گھومنے والے خلائی سیاروں کے کام کاج ممکن بناتی ہیں‘ انسانوں نے نہایت ہی ذہانت سے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا ہے جس سے لیس خلائی سیاروں کی دوربینیں موسمیاتی اثرات اور تبدیلیوں پر بھی نظر رکھتی ہیں اور مختلف افعال سر انجام دے رہی ہیں‘ ٹیکنالوجی پر منحصر دنیا میں مقابلہ امریکہ‘ چین اور تائیوان کے درمیان ہے‘ نصف صدی تک ریاستہائے متحدہ امریکہ میں کمپیوٹر چپس کے ڈیزائنرز نے چھوٹے سیلیکون ٹکڑوں سے طاقت حاصل کرنے کیلئے الیکٹرانک اجزأ کو چھوٹا بنایا پھر تقریبا ایک دہائی قبل سائنس دانوں نے فیصلہ کیا کہ جدید پیکیجنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ’چپلیٹ‘ تیار کی جائیں‘ اِس پیکیجنگ کے شعبے میں بھارتی سائنس دان امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔ چپ پیکیجنگ ٹیکنالوجیز پر مشرقی ایشیا کے ممالک کا غلبہ ہے اگرچہ امریکہ عالمی سیمی کنڈکٹر کی پیداوار کا تقریبا ًبارہ فیصد فراہم کر رہا ہے لیکن امریکی کمپنیاں ٹیکنالوجی کے شعبے میں پیداوار کا صرف تین فیصد دے رہی ہیں‘ امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن اب توازن کو امریکہ کے حق میں کرنا چاہتے ہیں اور اُنہوں نے متعدد اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔ کانگریس کو چپس ایکٹ کی منظوری دی تھی جس کے تحت گھریلو چپ بنانے والی صنعتوں کو دوبارہ متحرک کرنے کیلئے مجموعی طور پر باون ارب ڈالر کی سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے اور اِس میں سب سے زیادہ توجہ پیکیجنگ کرنے والی صنعتوں کو حاصل ہے‘ امریکہ کی جانب سے ’چپ ساز‘ ٹیکنالوجی کمپنیاں کیلئے باون ارب ڈالر کی امداد‘ واحد مدد نہیں مارچ دوہزارتیئس میں‘ صدر بائیڈن نے ایک نتیجہ جاری کیا کہ جدید پیکیجنگ اور گھریلو بورڈ کی پیداوار قومی سلامتی کیلئے ضروری ہے اور اِن شعبوں میں امریکی اور کینیڈین کمپنیوں کے لئے ’ڈیفنس پروڈکشن ایکٹ فنڈنگ‘ میں پچاس بلین ڈالر امداد کا اعلان کیا گیا لیکن یہ مالی امداد اور مراعات غیر ملکی ملکیت رکھنے والی چپ ساز کمپنیاں کیلئے نہیں‘ امریکہ کے اِن اقدامات کا مقصد ’چپ سازی‘ میں چین کی پیش قدمی روکنا یا اِس پیش قدمی کی رفتار سست کرنا ہے‘ اس کے جواب میں چین نے بھی ’چپ ساز شعبے‘ کی ترقی پر توجہ مرکوز کی ہے اور پہلے سے زیادہ توجہ ’چپ ساز صنعتوں‘ کیلئے مختص کی ہے‘ چین کے کاروباری ادارے ہر شعبے میں ’جدید ٹیکنالوجیز‘ کے فروغ کیلئے کام کر رہے ہیں اور یہی وہ شعبہ ہے جس میں پاکستان کو بھی سرمایہ کاری کرنے اور آگے بڑھنے کیلئے کام کرنا چاہئے‘ اِس سلسلے میں دو اقدامات کرنا ہوں گے اور دونوں پر پوری تندہی سے عمل درآمد بھی کرنا ہوگا‘ پہلا یہ کہ حکومت کو ’تفصیلی ٹیک پالیسی‘ جاری کرے جس میں حال سے زیادہ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے۔ مستقبل میں ’فعال و متحرک انفارمیشن ٹیکنالوجی پالیسی‘ ہی معاشی و اقتصادی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے‘ پاکستان کو چین کی دوستی اور چین کے تجارتی توسیع پسندانہ عزائم سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھانا چاہئے‘ فی الوقت پاکستان میں ایسے ادارے موجود ہیں جو چین کے نجی اداروں سے بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اداروں سے رابطے میں ہیں لیکن یہ تعاون بنیادی شکل کا ہے جبکہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں مصنوعی ذہانت متعارف ہو چکی ہے‘ پاکستان کیلئے دوسرا فوری اقدام یہ ہونا چاہئے کہ چین اور مقامی پاکستانی جامعات اور تربیتی اداروں کے درمیان علم و ہنر کے تبادلے کیلئے شراکت داری قائم ہو تاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرنے کیلئے معیاری تعلیم و تربیت کے مراکز قائم کئے جاسکیں‘ حکومت کو اس طرح کے اداروں کی تعمیر کیلئے بڑی مقدار میں سرمایہ مختص کرنے کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے‘ اِس مقصد کیلئے امریکہ کے امدادی ادارے ’یو ایس ایڈ‘ سے بھی تعاون کی درخواست کی جا سکتی ہے جو اُنیس سو ساٹھ کی دہائی میں مشرقی و مغربی پاکستان میں دیہی ترقی کے شعبوں میں مدد فراہم کر رہا ہے‘ وقت ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی طرز پر ’امریکہ پاکستان ٹیکنالوجیکل کوآپریشن‘ جیسے ممکنات سے فائدہ اُٹھایا جائے‘ ذہن نشین رہے کہ امریکہ کے مقابلے چین اپنے دوست ممالک کو ٹیکنالوجی کی منتقلی کرتا ہے اور دوست ممالک میں تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کرنا بھی چین کی حکمت عملیوں میں شامل ہے‘ پاکستان کے فیصلہ سازوں کو ’مصنوعی ذہانت‘ کی تیز رفتار ترقی پر نظر رکھنی چاہئے جس کیلئے مستقبل قریب میں تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہوگی اور اِس سلسلے میں امریکہ سے تعلیم و تحقیق اور چین سے ٹیکنالوجی و افرادی قوت کی تربیت جیسے وسائل حاصل کرنیکی کوششیں تیز کرنیکی ضرورت ہے۔