گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی تنبیہ سائنس دان کئی عشروں سے کر رہے تھے۔مگر حکمرانوں اور منصوبہ سازوں سمیت کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی تھی‘اس کے منفی اثرات گذشتہ چند سالوں سے ظاہر ہونے لگے تو سب کے کان کھڑے ہوگئے۔بے موسم بارشوں، بعض علاقوں میں خشک سالی، گلیشئرز کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے کافی جانی و مالی نقصانات ہورہے ہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں کے پہاڑوں میں موجود برف پگھلنے سے 2010سے اب تک چار مرتبہ تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔بلوچستان اور سندھ میں اب بھی ہزاروں افراد سیلاب کے کھڑے پانی کے اندر زندگی گذار رہے ہیں ان کی آباد کاری کیلئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی کال پر بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس بھی ہوئی تھی جس میں مختلف ممالک اور مالیاتی اداروں کی طرف سے اربوں ڈالر کی امداد کے وعدے بھی کئے گئے تھے۔ مگر وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہوجائیں۔بات گلوبل وارمنگ کی ہورہی تھی۔ عالمی درجہ حرارت میں اچانک اضافے سے دنیاکے مختلف ملکوں میں کروڑوں افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔بین الاقوامی جریدے "نیچر "میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ موجودہ رجحان کو مدنظر رکھا جائے تو رواں صدی کے اختتام تک عالمی درجہ حرارت میں صنعتی عہد کے مقابلے میں 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔اس اضافے کے نتیجے میں دنیا کے بیشتر ممالک میں اوسط درجہ حرارت انسانی برداشت سے باہر ہو جائے گا۔موسمیاتی سانحات کے باعث دنیا بھر میں 50 سالوں کے دوران 20 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔5 برسوں کے دوران عالمی درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد سے تجاوز کرنے کا انتباہ جاری کیا گیا ہے۔تحقیق کے مطابق 2030 تک ہی 2 ارب افراد ک کیلئے سالانہ اوسط درجہ حرارت 29 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو جائے گا اور بہت کم انسانی آبادی اتنے درجہ حرارت میں زندگی گزارنے کی عادی ہے۔محققین کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث ایک ارب افراد زیادہ ٹھنڈے مقامات کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں گے، مگر وہاں بھی انہیں خشک سالی کے سنگین مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے اگر فیکٹریوں سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک برقرار رکھنے کیلئے ہنگامی اقدامات کیے گئے تو شدید درجہ حرارت کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں 80فیصد کمی لانا ممکن ہے۔درجہ حرارت میں عدم توازن خوراک کی پیداوار اورمعاشی شرح نمو پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے‘ برداشت سے زیادہ درجہ حرارت مختلف مسائل کا سبب بنتا ہے جن میں شرح اموات میں اضافہ، لوگوں کی پیداواری صلاحیت میں کمی، دماغی افعال کی تنزلی، سیکھنے کے عمل پر منفی اثرات‘فصلوں اور پھلوں کی پیداوار متاثر ہونا اور وبائی امراض کا پھیلاؤ شامل ہیں۔حکومتی اقدامات کے ساتھ اگر ہم ماحول کو صاف رکھنے، پھول، پودے لگانے اور درختوں کی کٹائی سے اجتناب جیسی عادات اپنالیں تو موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں کی شرح میں کمی لاسکتے ہیں۔