زراعت: بنیادی و عبوری کردار

زرعی شعبے کو صنعتی شعبے کے مقابلے میں بالعموم ’نظرانداز‘ کیا جاتا ہے کیونکہ زرعی پیداوار حاصل کرنے کے لئے ایک خاص عرصے انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ صنعتوں کا پہیہ زیادہ تیزی سے چلتا ہے اور قابل فروخت اشیا کا انبار لگا دیتا ہے جسے برآمد کر کے فوری آمدنی حاصل کی جاتی ہے لیکن چمنیوں سے خارج ہونے والے دھویں کو نہیں دیکھا جاتا جس کے باعث موسمیاتی تبدیلیاں شدت سے رونما ہو رہی ہیں جبکہ زراعت ایک ماحول دوست عمل ہے۔ مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبوں میں توسیع ہونی چاہئے لیکن یہ توسیع اگر زراعت کو نظرانداز کر کے کی جا رہی ہے تو اِس سے خاطرخواہ ترقیاتی اہداف حاصل نہیں ہوں گے جبکہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جن ممالک نے زراعت پر صنعتوں کو ترجیح دی اُنہیں بعدازاں کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مسابقتی مینوفیکچرنگ یا خدمات کے شعبے کی ترقی برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ بیش قیمت اشیا اور خدمات کی برآمدات کو فروغ دینا بھی ہمہ وقت ممکن نہیں رہتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ درمیانی اور طویل مدت میں پاکستان کو مؤثر اور برآمدی مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے کو فروغ دینا ہوگا۔ تاہم اس کے لئے موجودہ نظام اور حکمت عملیوں پر نظرثانی اور مشکلات یا رکاوٹوں کی کثرت پر قابو پانے کی ضرورت ہوگی۔ جن میں ناقص انفراسٹرکچر‘ توانائی کی ناقابل بھروسہ حالت اور توانائی کی فراہمی میں رکاوٹیں‘ ہنرمند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت کی کمی‘ درآمدی اِن پٹ پر بھاری انحصار اور عالمی ویلیو چینز تک محدود رسائی جیسے عوامل شامل ہیں۔ یہاں تک کہ اگر مناسب پالیسیاں اور پروگرام مرتب کیے جاتے ہیں‘ تو ان رکاوٹوں پر قابو پانے میں وقت لگے گا۔سوال یہ ہے کہ بنیادی یا عبوری طور پر ’کیا زراعت پاکستان کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے؟ اِس وقت پاکستان کا زرعی شعبہ انتہائی کمزور اور غیر مؤثر ہے کیونکہ زرعی شعبہ قریب چالیس فیصد روزگار فراہم کر رہا ہے جبکہ اِس کی صلاحیت ستر فیصد سے زائد روزگار فراہم کرنے کی ہے اور یہ ملک کی مجموعی خام پیداوار (جی ڈی پی) میں صرف ایک چوتھائی حصہ داری رکھتا ہے۔ پاکستان میں کاشتکاروں اور کسانوں کی اکثریت چھوٹے رقبہ جات (پلاٹوں) پر کھیتی باڑی کرتی ہے جبکہ ضرورت بڑے پیمانے پر زراعت کی ہے۔ چھوٹے کسانوں کی آمدنی اور مشینری‘ زمین کی بہتری و تربیت میں سرمایہ کاری کی صلاحیت میں کمی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ سرمایہ کاری‘ ہنرمند افرادی قوت اور انٹرپرینیورشپ سے محروم‘ زرعی شعبہ خاطرخواہ توجہ سے محروم ہے۔ اہم زرعی مصنوعات پر پیداوار کی صلاحیت بھی کم ہے اور زمین‘ پانی اور توانائی جیسے ضروری وسائل کو غیر مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے سبب پیداواری اخراجات زیادہ جبکہ کاشتکاروں اور کسانوں کی آمدنی کم ہے جبکہ موسمیاتی اثرات کے باعث فصل میں سرمایہ کاری پہلے جیسی محفوظ بھی نہیں رہی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس تناسب سے قومی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اُس تناسب سے زرعی پیداوار نہیں بڑھ رہی اور اِس بات پر جس قدر تشویش کا اظہار کیا جائے کم ہوگا۔ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں زراعت کو ترجیح دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا اور اِس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ زراعت کی ترقی کسی بھی معیشت و معاشرت میں بہت سے مثبت اثرات (انقلابی تبدیلیاں) پیدا کرتی ہے اور ایسا ہونے کی صورت میں درآمدشدہ خوراک اور کپاس پر پاکستان کا انحصار کم ہوگا‘ جو ٹیکسٹائل صنعت کے لئے ضروری خام مال فراہم کرتا ہے۔ اس سے اعلیٰ قیمت کے پھلوں‘ سبزی اور لائیو سٹاک مصنوعات کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے دیہی علاقوں میں غربت کی سطح کم ہو گی جبکہ کم آمدنی رکھنے والے طبقات میں غذائیت کی سطح میں اضافہ ہوگا‘ جس افرادی قوت کی صحت کے حوالے سے نہایت ہی اہم و ضروری کام ہے۔ زراعت کی ترقی سے قومی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے گی۔ زرعی شعبے کو مشینری اور کیمیائی مادوں جیسی درآمدات کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر زراعت کو صنعتی پیمانے پر ترقی دی جائے تو یہی زرعی مشینری پاکستان میں بننے کی صورت بچت ممکن ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ گزشتہ دو تین برس میں زراعت میں نجی شعبے کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ کورونا وبا‘ روس یوکرین جنگ اور مختلف تجارتی تنازعات کے نتیجے میں خوراک و دیگر زرعی اجناس کی قلت ہے جس کی وجہ سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ زراعت میں نجی شعبے کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اپنی جگہ لیکن اِس سے پیداواری صلاحیت میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہو رہا۔ کھیت سے منڈیوں تک رسائی کا ’نیٹ ورک‘ بھی توانا بنانے کی ضرورت ہے۔زراعت کے لئے مختص مالی وسائل خرچ کرنے سے قبل قومی ترجیحات کا تعین ضروری ہے تاکہ خاطرخواہ بہتر نتائج حاصل کئے جا سکیں۔ گزشتہ دہائیوں کے دوران کھاد کی سبسڈی اور گندم کی سرکاری خریداری پر اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں اور اِن دونوں اقدامات سے بڑے پیمانے پر بڑے کسانوں کو فائدہ بھی پہنچا ہے۔ اسی طرح آبپاشی کے نظام کو ترقی دی گئی ہے لیکن اِس سے چھوٹے کاشتکاروں کی بجائے بڑے زمینداروں کو زیادہ فائدہ ہوا ہے کیونکہ چھوٹے کسانوں کی اکثریت نہری نظام کے آخری سرے پر رہتی ہے اور اُنہیں اپنے حصے کا پانی نہیں ملتا جو کہ ایک عمومی شکایت ہے۔