یہ ریال میڈرڈ اور مانچسٹر سٹی کے درمیان میچ کے آخری مراحل تھے جب چیمپئنز لیگ میں بہترین کارکردگی دکھانے والی ریال میڈرڈ کے مداحوں کو2022 ء میں فائنل تک رسائی ناممکن دکھائی دے رہی تھی تاہم ریال میڈرڈ کی ٹیم کو ٹیم آف ڈریمز اور کرشمہ دکھانے والی ٹیم کہا جاتا ہے‘ان کے کوچ انہیں اس میچ سے قبل صرف اسی سیزن میں سات مرتبہ دوسری ٹیم کی برتری حاصل کرنے کے بعد کم بیک کر کے جیتنے کی ویڈیوز دکھا چکے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ اب بھی ٹیم میں یقین موجود تھا۔اگلے88سیکنڈز میں جو ہوا، اس نے فٹبال کی دنیا کا سر چکرا دیا؛ریال میڈرڈ کی جانب سے اتنے کم وقت میں لگاتار تین گول کئے گئے اور یوں یہ ٹیم ایک اور چیمپیئنز لیگ فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی اور بعد میں اس میں 14ویں دفعہ چیمپیئن بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا‘کرکٹ کی دنیا میں ایسی ہی ناقابلِ یقین پوزیشنز سے کم بیک کرنے والی ٹیم پاکستان کی ہے جس کی تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے؛اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ہے جب ایک موقع پر پاکستان کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات صرف چار فیصد تھے، تاہم پھر پاکستان نے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ کا فائنل بھی کھیلا‘ اس کی سب سے مقبول مثال 1992ء کے ورلڈ کپ کی دی جاتی ہے جب پاکستان نے ایک ناقابلِ یقین صورتحال سے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ جیتا تھاتاہم یہ وہ واحد ون ڈے ورلڈ کپ ہے جو پاکستان اب تک جیت سکا ہے اور ون ڈے کرکٹ میں گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستانی ٹیم صرف ایک مرتبہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے‘یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم مینجمنٹ نے دی پاکستان وے کے نام سے ایک جارحانہ حکمت عملی اور کلچر میں تبدیلی متعارف کروائی ہے‘ اس کے تحت ہی ورلڈ کپ 2023 ء میں کھیلے گی۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے منیجر ریحان الحق پاکستان کرکٹ ٹیم اور ریال میڈرڈ کے درمیان مماثلت دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ چیمپیئنز لیگ فٹبال میں جیسے ریال میڈر ایک نئے لیول پر آ جاتی ہے‘اسی طرح پاکستانی ٹیم کی بھی یہ خاصیت ہے کہ اسے جب بھی کارنر کیا جاتا ہے تو وہ بار بار اس میں سے نکل کر فتح حاصل کرتی ہے، یہی چیز کھلاڑیوں کو باور کروانے اور ان کی ذہنیت میں تبدیلی کیلئے ہم نے دی پاکستان وے کی حکمتِ عملی متعارف کروائی ہے‘ریحان کے مطابق دی پاکستان وے کا مطلب یہ ہے کہ کیونکہ پاکستانی قوم مشکل وقت کے باوجود ابھر کر سامنے آنے والی قوم ہے اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب میں مشکل وقت میں کم بیک کرنے کی صلاحیت پہلے سے موجود ہے۔لیکن اس حکمتِ عملی کے تحت ہم چاہتے ہیں کہ ہم کارنر ہونے سے پہلے ہی جارحانہ انداز اپنائیں تاکہ ہم بڑے ٹورنامنٹس میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ یعنی جو جارحانہ انداز اور صلاحیت ہم کارنر ہونے کے بعد دکھاتے ہیں وہ ہم شروع سے ہی کیوں نہیں دکھا سکتے؟ اس حکمتِ عملی کے راتوں رات نتائج نہیں آئیں گے، اس میں وقت لگے گا انہوں نے کہا کہ بابر اعظم جانتے ہیں کہ ٹیم سے کہاں اور کس موقع پر غلطیاں ہوئیں‘ہمیں ان کی اصلاح کرنی ہے ا یسی حکمتِ عملی کی خاص طور پر اس وقت ضرورت پیش آتی ہے جب کوئی ٹیم ایک طویل عرصے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر رہی ہو۔