عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ ’منکی پوکس (MonkeyPox)‘ نامی بیماری‘ عالمی سطح پر صحت عامہ کے لئے خطرہ (ہنگامی صورتحال کی متقاضی) نہیں لیکن مذکورہ بیماری کا باعث بننے والا جرثومہ (وائرس) ختم نہیں ہوا اور اِس وباء کی مزید (نئی) لہریں آ سکتی ہیں اِس لئے دنیا کو محتاط (ہائی الرٹ) رہتے ہوئے خبردار و ہوشیار رہنا چاہئے‘ ذہن نشین رہے کہ ’منکی پوکس‘ نامی بیماری ایک متاثرہ شخص سے دوسرے کو منتقل ہو سکتی ہے اِس بیماری کا اصطلاحی نام ’ماشیپوک‘ ہے اور یہ ’منکی پوکس‘ نامی وائرس کی وجہ سے ہوتی جو چیچک کا باعث بننے والے وائرس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس مرض کی ابتدائی علامات میں بخار‘ سر درد‘ اعضا کی سوجن‘ کمر درد اور پٹھوں میں ہونے والا درد شامل ہیں۔ مرض کی علامات میں بخار ٹوٹنے کے بعد بدن پر دانے نمودار ہوتے ہیں‘ جو اکثر چہرے سے شروع ہو کر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتے ہیں اور یہ عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پیروں کے تلوؤں پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اِس وائرس میں مبتلا کوئی بھی شخص اگر مرض کے دوران سماجی و جنسی تعلقات قائم رکھتا ہے تو اِس سے مرض پھیلتا چلا جاتا ہے جبکہ اِس سے بچاؤ کی ویکسین موجود ہے جو جسم کے مدافعاتی نظام کو کسی ممکنہ حملے سے بچاتی ہے۔پاکستان کے موجودہ معاشی حقائق اور اِن خراب معاشی حالات میں اِس بات کی توقع نہیں کی جانی چاہئے کہ صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے میں وبائی امراض کے پھیلنے کو روکنے یا اِن سے ممکنہ بچاؤ کی ویکسینز فراہمی کی مہمات چلائی جائیں گی دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت اِس مثالی حالت میں بھی نہیں کہ ملک میں ’ہیلتھ ایمرجنسی‘ نافذ کی جائے۔ رواں ہفتے پاکستان میں وائرس کے دو کیسز سامنے آئے ہیں‘ جس کے بعد پاکستان میں مونکی پاکس مریضوں کی تعداد پانچ ہوگئی ہے اگرچہ یہ تعداد بظاہر کم ہے لیکن آگاہی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے بھی مونکی پاکس وائرس کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مونکی پاکس نامی بیماری دنیا کے لئے نئی نہیں۔ اِس کی 1970ء سے تشخیص ہو رہی ہے جس کے بعد سے یہ وقتاً فوقتاً بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ سال جب برطانیہ میں اِس کے سب سے زیادہ کیسز سامنے آئے تھے تو ’ڈبلیو ایچ او‘ نے اِس کی علامات بارے ایک تفصیلی فہرست جاری کی تھی جس میں جلد کے دانے‘ زخم‘ سوجن (لمف نوڈز)‘ بخار و دیگر علامات شامل تھیں اور اِن میں کہا گیا تھا کہ چیچک متاثرہ انسانوں اور جانوروں کے آپسی رابطوں یا تعلق سے پھیلتی ہے اور چیچک کی ویکسین کو مونکی پاکس میں حفاظتی اقدام کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگست دوہزاربائیس میں ڈبلیو ایچ ا ونے اٹھارہ ممالک میں 78 ہزار سے زائد ’مونکی پاکس‘ کے مریضوں کی اطلاع دی تھی جبکہ دسمبر دوہزاربائیس میں بھی اِس کے پھیلنے کا سلسلہ جاری رہا۔ مونکی پوکس کی متعدی نوعیت و صلاحیت کو پاکستان میں نظر انداز کیا جاتا ہے اور اِس سے بچاؤ کے لئے حفاظتی اقدامات بھی
دیکھنے میں نہیں آتے جبکہ باخبر رہتے ہوئے صحت کے عملے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اِس وبا کو روکا جاسکتا ہے۔ پبلک مقامات بالخصوص ہوائی اڈوں پر وائرس کی ایک دوسرے کو منتقلی روکنے کے لئے ٹاسک فورسز کا قیام‘ آئسولیشن اور تشخیصی سہولیات میں خاطرخواہ اضافے کی کوششیں دیکھنے میں نہیں آ رہیں اگرچہ یہ وائرس ’مہلک خطرہ‘ نہیں کیونکہ یہ دو سے چار ہفتوں میں خود ہی مر جاتا ہے لیکن ’ڈبلیو ایچ او‘ نے اِس کی وجہ سے جولائی دوہزارتیئس تک ہوئی تین ہزار سے زائد اموات ریکارڈ کی ہیں لہٰذا چیچک کا ٹیکہ ہی اِس سے ممکنہ بچاؤ کی تدبیر ہے جس سے یہ انفیکشن پچاسی فیصد تک روکی جا سکتی ہے۔ رواں ہفتے کے اوائل میں پاکستان میں ’منکی پوکس‘ کا ایک اور کیس سامنے آیا جو تین روز میں سامنے آنے والا اپنی نوعیت کا دوسرا ایسا کیس ہے۔ وائرس کے پھیلنے کے بڑھتے ہوئے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ صحت کے حکام کو مزید انفیکشن روکنے کے لئے پیشگی کاروائی کرنی چاہئے۔ وقت کے ساتھ مونکی پاکس کا باعث بننے والا وائرس زیادہ متعدی ہو گیا ہے اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنے والے اِس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ درحقیقت‘ مونکی پاکس کی کئی اقسام فعال ہیں۔ موجودہ وباء کے بہت سے کیسز میں وائرس کی پچھلی اقسام کی علامات دکھائی دیتی ہیں جن میں عمومی زکام بھی بیماری کی علامت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ پاکستان میں مونکی پوکس کے تینوں کیسز کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے جہاں سے آنے والے مسافر اِس وائرس کو اپنے ساتھ لائے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ کورونا وباء کی طرح اِس وائرس کو بھی بیرون ملک سے آنے والوں کی جانچ پڑتال کر کے روکا جا سکتا ہے۔ تحقیق سے عیاں ہوا ہے کہ مونکی پوکس جیسے ڈی این اے وائرسیز کو عموماً بآسانی شکست نہیں دی جا سکتی۔ یہ مستحکم ہوتے ہیں اور اپنے اندر مدافعت بھی رکھتے ہیں جیسا کہ کورونا وائرس یا ایبولا جیسے آر این اے وائرس کی صورت میں دیکھا گیا لیکن مذکورہ دونوں وائرس فوری اثر نہیں دکھاتے جبکہ مونکی پاکس فوراً اثر دکھاتا ہے اور اِس کی متعدیت و شدت وقت کے ساتھ تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ کورونا وائرس کے برعکس‘ جو کہ بغیر علامات یا مرض کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی پھیل سکتا ہے جبکہ مونکی پوکس ایسا نہیں کرتا اور اِس میں علامات پہلے ظاہر ہوتی ہیں جس کے بعد یہ متعدی رخ اختیار کر کے خطرناک شکل میں چلا جاتا ہے۔ مونکی پوکس کے بارے میں سوشل میڈیا اور بالخصوص واٹس ایپ گروپوں میں طرح طرح کی افواہیں پھیلی ہوئی ہیں اور ایسی افواہوں (غیرتصدیق شدہ باتوں یا مفروضوں) کو بنا تحقیق نہیں پھیلایا جانا چاہئے۔ ’غلط معلومات‘ سے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے اور ایک ایسی صورت میں جبکہ معیشت پہلے ہی مشکل دور سے گزر رہی ہے تو ایسے میں مہلک جراثیموں کے پھیلنے سے معاشی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں ’منکی پاکس‘ عالمی آبادی کے لئے فوری خطرہ نہیں لیکن ایسے دیگر وائرسیز موجود ہیں جو اِس سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اور اِن سے بچنے کے لئے سماجی روابط میں محتاط رہنا ہی دانشمندی ہے۔