ٹھیک 35برس قبل آج ہی کے دن اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور ان کی کابینہ کے لئے منحوس دن ثابت ہوا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی کہ کچھ دیربعد ہی ان کو ان کے عہدوں سے ہٹادیاجائے گا وزیراعظم جونیجو چین،فلپائن،ہانگ کانگ اورجنوبی کوریا کے دورے سے واپس اسلام آبادپہنچے،29مئی کو ان کا جہاز ساڑھے پانچ بجے اسلام آبادکے ہوائی اڈے پراترا جہاں انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنی آخری پریس کانفرنس کی جب وہ پریس کانفرنس کررہے تھے تو اخبار نویسوں کو صدرضیاء کی پریس کانفرنس کی بھی اطلاع دی گئی جاننے والے جان گئے کہ یہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کی آخری پریس کانفرنس ہے پریس کانفرنس ختم کرنے کے بعد جونیجو وزیراعظم ہاؤس روانہ ہوئے جبکہ صحافیوں نے آرمی ہاؤس کی راہ لی‘وزیر اعظم ہاؤس پہنچ کر ابھی جونیجو نے پانی کاگلاس بھی ختم نہیں کیاتھاکہ ان کے اے ڈی سی نے انہیں برطرفی کی خبر سنائی جسے سن کر وہ حیران رہ گئے وہ چند لمحوں میں وزیر اعظم سے ایک عام آدمی بن گئے‘ دلچسپ امر یہ ہے کہ صدر کو اسمبلیاں توڑنے کااختیار بھی خودوزیر اعظم محمد خان جونیجوکی حکومت نے دیاتھا جب 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعدحکومت سازی کامرحلہ طے پایا تو جنرل ضیا ء نے انتقال اقتدارپر مشروط آمادگی ظاہر کرتے ہوئے مارشل اقدامات کو قانونی تحفظ دینے اور اپنے اختیارات میں اضافہ کے لئے آٹھویں آئینی ترمیم منظور کرانے کا ”حکم“دیا تھا اس وقت نامزد وزیر اعظم محمدخان جونیجو کے سامنے یہ شرط ماننے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہ تھا چنانچہ آٹھویں آئینی ترمیم منظور کروالی گئی جس کے تحت صدر کو وزیر اعظم کی برطرفی اور اسمبلیاں توڑنے کااختیار مل گیا تاہم محمد خان جونیجو نے بھی ایک شرط رکھی تھی کہ ترمیم کی منظور ی کے بعدمارشل لاء اٹھالیا جائے گا چنانچہ پھر 31دسمبر 1985ء کو آٹھ سال بعد مارشل لاء اٹھالیا گیا جہاں تک محمد خان جونیجو کاتعلق تھا تو وہ انتہائی شریف النفس انسان تھے ان کو بہت ہی کمزور وزیر اعظم خیال کیاجارہاتھا مگر پھررفتہ رفتہ انہوں نے جنرل ضیاء کے مدمقال آناشر وع کردیامئی 1987سے مئی 1988ء بعض ایسے واقعات پیش آئے جس سے سیاسی کشید گی میں اضافہ ہوتا چلاگیا 1987ء میں بجٹ پیش کیاگیا اس پر شدید ردعمل سامنے آیا جس کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار بجٹ کوواپس لیا گیا وزیر اعظم جونیجو نے اعلان کیاکہ کوئی بھی جرنیل 800سی سی سے بڑی کار میں نہیں بیٹھے گا‘اسی طرح سول افسران اور وزراء کو بھی چھوٹی گاڑیوں میں بٹھایاگیاجس پر بیوروکریسی نے ناپسندیدگی کااظہار کیا دونوں بڑوں کے درمیان اختلافات اس وقت شدت اختیار کرنے لگے تھے کہ جب وزیر اعظم نے صدر کی خواہش کے برعکس افغان پالیسی میں دخل دینا شروع کردیا چنانچہ افغان پالیسی پر انہوں نے جنرل ضیاء کے برخلاف پالیسی اختیار کرتے ہوئے ان کی کوشش و خواہش کے باوجودجنیوا سمجھوتہ پر دستخط نہ کرنے سے انکار کردیاتھا اورتو اور اس سلسلہ میں قومی پالیسی طے کرنے کے لئے انہوں نے کل جماعتی کانفرنس بھی طلب کرکے تمام سیاسی قیادت کو ایک میز پر بٹھا دیاتھا جس میں جنرل ضیاء کے خلاف تحریک چلانے والی ایم آرڈی کی جماعتوں کے قائدین بھی شامل تھے محمد خان جونیجو نے ولی خان،غوث بخش بزنجو،نوابزادہ نصر اللہ خان،مولانا فضل الرحمن سمیت تمام اہم قائدین کو مدعوکیاتھا اور پھر ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے بے نظیر بھٹو کو اپنے قریب نشست دی تھی جس سے جنرل ضیاء کو زچ کرنا مقصودتھاجب جنرل ضیاء کو یقین ہوگیاکہ حکومت جنیو ا سمجھوتہ پر دستخظ کرنے والی ہے تو ایک دن جنر ل ضیاء بن بلائے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جاپہنچے اور اس وقت کے وزیر خارجہ زین نورانی کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی مگر اس کے باوجود جونیجو حکومت نے سمجھوتے پر دستخط کردیئے جس نے سیاسی کشمکش میں شدید اضافہ کردیا اورجنرل ضیاء الحق نے آریا پار کی ٹھان لی پھر جب اپریل 1988ء میں اوجڑی کیمپ سانحہ رونما ہوا تو کہاجاتاہے کہ محمد خان جونیجو نے جو انکوائر ی کروائی تھی اس میں بعض جرنیلو ں کے نام آئے تھے اور وہ دورہ چین کے بعدان جرنیلوں کو فارغ کرنے کااعلان کرنے والے تھے مگر وہ یہ بھول چکے تھے کہ وہ جمہوریت کاگلہ کاٹنے کااختیار جنرل ضیاء کو دے چکے ہیں چنانچہ اس موقع پر جنر ل ضیاء الحق نے حکومت کابوریا بستر گول کرنے کافیصلہ کیا اور پھر 29مئی 1988ء کو جنرل ضیاء نے بیک جنبش قلم وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو برطرف اور قومی اسمبلی سمیت تمام صوبائی اسمبلیوں کو برطرف کرنے کے احکامات جاری کردیئے یہ آٹھویں ترمیم کاپہلا شکار تھا اس کے بعد1990ء میں بے نظیر بھٹو 1993ء میں میا ں نوازشریف96 19ء میں پھر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف اوراسمبلیوں کو برخاست کردیاتھا گیا تھا‘ جنرل ضیا نے ایک،غلام اسحق خان نے دو اور فاروق لغاری نے ایک اسمبلی کی قربانی دی تھی گویا محض آٹھ سال کے قلیل عرصہ میں اس آٹھویں ترمیم نے چار اسمبلیوں کوچلتا کردیاتھا جب تک یہ ترمیم برقرار رہی جمہوریت صدر کے رحم و کرم پررہی حکومت کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ صدر صاحب کو ناراض نہ ہونے دیا جائے مگر یہ ناممکن تھا کیونکہ صدر صاحب بھی اپنے اختیارات سے چونکہ بخوبی آگاہ تھے اس لئے وہ بھی خاصے متحر ک رہاکرتے تھے اور پھر اسی وجہ سے مفادات کا ٹکراؤ ہوجاتا اور جمہوریت کی قربانی دے دی جاتی یہ تو بعدازاں جب 1997ء کے انتخابات میں میاں نوازشریف بھاری مینڈیٹ کے ساتھ حکومت میں آئے تو انہوں نے قوم اور پارلیمانی جمہوریت دونوں کو ہی اس مشکل سے چھٹکارا دلا دیا مگر اس کے باوجود وہ پانچ سال پور ے نہ کرسکے اور ان کی دوسری حکومت جنرل مشرف کی نذر ہوگئی بہرحال آج کادن پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طورپریاد رکھے جانے کے قابل ہے کیونکہ آج کے دن جنرل ضیاء نے جس طریقے سے اپنی ہی بحال کردہ نیم جمہوریت کاگلہ گھونٹ دیاتھا اس نے آگے چل کر مزید تین اسمبلیوں کی تحلیل کی بنیا د رکھ دی تھی‘آٹھویں ترمیم پاکستانی آئین میں ہونے والی بعض متنازعہ ترین ترامیم میں سے ایک تھی جنرل ضیاء نے تو محمد خان جونیجو کو بڑے ہی ذلت آمیز طریقے سے رخصت کردیاتھا ا س کے بعدسے ان کو سکون نہ مل سکا پہلے توسپریم کورٹ نے ان کے غیر جماعتی انتخابا ت کے فیصلے کو کالعدم قراردے کرجماعتی بنیادوں پر انتخابات کافیصلہ کیا اورپھرمحمدخان جونیجو کو برطرف کرنے کے محض تین ماہ کے اندر اندر خود جنرل ضیاء فضائی حادثے کاشکارہوکر تاریخ کاگمشدہ با ب بن گئے۔