ایک دور تھا کہ جب گھروں میں گہماگہمی ہوا کرتی تھی۔ اب ہر کوئی سمارٹ فون لیے اپنی دنیا میں مگن ہے، کوئی لیپ ٹاپ پر بیٹھا ہے تو کوئی کمپیوٹر پر براجمان ہے۔جاپان سے روس، آسٹریلیا سے لے کر امریکہ، جرمنی سے کینیڈا تک کروڑوں لوگ روزانہ کی بنیاد پر کم از کم تین سے چار گھنٹے ضرور انٹرنیٹ صرف کرتے ہیں، جو کسی نشے سے کم نہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی تقریبا ًآدھی آبادی انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہے اور اس تعداد میں بڑی سرعت کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ عام افراد، ریاستیں، ملٹری، بزنس، ہوائی کمپنیاں، انڈسٹریز ،تعلیمی ادارے، الغرض یہ کہ دنیا کا کوئی ایسا شعبہ نہیں، جو انٹرنیٹ پر منحصر نہ ہو۔ذرا نوٹ کیجئے گا کہ اگر تین چار دن کے اندر آپ سوشل میڈیا کو اپ ڈیٹ نہیں کرتے تو آپ بے چین ہونے لگتے ہیں بلکہ کچھ لوگ اپ ڈیٹ نہ رہنے کو جرم تصور کرتے ہیں۔ کچھ بھی اپ لوڈ نہیں کرتے تو دوسروں کی سرگرمیوں
کا تجسس آپ کو انٹرنیٹ سے جڑے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ لوگ دوسروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کو اپنی تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے۔یہ بات فراموش نہیں کی جا سکتی کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہزاروں سکول، کالجز، یونیورسٹی کے بچھڑے دوست ملے تو، نا جانے ہر روز کتنے طبقہ فکر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ روابط بڑھاتے ہیں۔ حالات حاضرہ، دلچسپ واقعات، بےلاگ تبصروں، انٹرنیشنل خبروں ، انفارمیشن اورتاثرات کے لئے انٹرنیٹ حاضر خدمت رہتا ہے۔ علاوہ ازیں انٹرنیٹ نے کاروباری اداروں کے لئے اپنے صارفین کے ساتھ گفت و شنید کرنا بھی آسان بنا دیا ہے، جس سے انہیں اپنے کاروبار کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔ ہم لوگوں سے آمنے سامنے رابطہ قائم کرنے کے لئے اسکائپ اور زوم جیسی ویڈیو کانفرنسنگ خدمات بھی استعمال کرسکتے ہیں۔انٹرنیٹ ہماری زندگی میں رچ بس گیا ہے۔عصر حاضر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بغیر زندگی گزارنا تقریبا ًناممکن بن چکا ہے۔ لوگ اس کے اتنے عادی ہو چکے ہیں، جیسے زندہ رہنے کے لیے پانی، آکسیجن اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔روزانہ دیوانگی کی حد تک لوگ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اگر صارفین چند
گھنٹے انٹرنیٹ سے دور رہیں تو انہیں حقیقتاً ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کوئی اہم چیز کھو گئی ہے اور یہ دورانیہ ایک دن سے ذیادہ تجاوز کر جائے تو کچھ لوگ یوں تھکے تھکے بیمار دکھائی دیتے ہیں گویا ہر کوئی انٹرنیٹ کا مریض ہے ۔دوسری طر ف انٹر نیٹ موجود ہوتو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کوئی سپر فوڈ ہے، جو انہیں ہشاش بشاش رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔دوسری طرف ماہرین نے سوشل میڈیا کے جو نقصانات گنوائے ہیں وہ بھی اگر مد نظر رہیں تو موبائل فون کا استعمال ایک حد تک ضروری ہے اور اگر اس سے زیادہ ہو تو فائدے کی بجائے اس کے نقصانات زیادہ ہیں۔ اب تو ہم نے بچوں کو موبائل فونز دے دئے ہیں ،جن سے ایک طرف ان کی نظریں کمزور ہونے لگتی ہیں تو دوسری طرف ان میں تنہائی پسندی پروان چڑھنے لگتی ہے مستقبل میں ان کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرنے لگتی ہے ۔