’خیبر پختونخوا میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ ریفارمز ایکٹ 2015ئ‘ کے تحت قائم ہونے والی ’ایم ٹی آئیز‘ مالی مسائل سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف طبی و غیرطبی عملے کی بروقت تنخواہیں ادا کرنے کےلئے مالی وسائل دستیاب نہیں بلکہ علاج کی سہولیات جاری رکھنے میں بھی مشکلات درپیش ہیں اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو سرکاری علاج گاہوں میں فراہم کی جانے والی سہولیات بتدریج کم یا اُن کی معیار پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اِس حوالے سے ’میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز پالیسی بورڈ‘ نے بھی ’درجہ¿ سوم‘ کے ہسپتالوں اور اُن سے وابستہ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کو درپیش مالی مسائل پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ وہ مریضوں کو بلا تعطل خدمات کی فراہمی کےلئے مالی وسائل کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جائے‘ ذہن نشین رہے کہ ’ایم ٹی آئی‘ نامی نظام کے تحت سرکاری علاج گاہوں کو مالی و انتظامی خودمختاری دی گئی تاہم مریضوں کی تعداد اور مہنگائی کے سبب یہ ہسپتال اپنی آمدن و اخراجات میں توازن برقرار نہیں رکھ پا رہے اور اپنی خدمات کی قیمت میں اضافہ بھی نہیں کر سکتے کہ ایسا کرنے سے تاریخ کی بلندترین مہنگائی کی شرح سے دوچار عام آدمی کےلئے اضافی مشکلات پیدا ہوں گی۔ ’ایم ٹی آئی‘ پالیسی بورڈ کے مطابق علاج کی خدمات کو جاری رکھتے ہوئے طبی و غیرطبی عملے کی تنخواہوں کے لئے فوری طور پر مالی وسائل درکار ہیں‘ خیبر پختونخوا میں مذکورہ قانون متعارف کرانے کے بعد سے اب تک دس ہسپتالوں اور ادارے میں ’ایم ٹی آئی آر اے‘ نافذ کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اِس قانون کا مقصد سرکاری ہسپتالوں کو اپنی ضروریات کا تعین کرتے ہوئے علاج کی سہولیات و ضروریات میں توسیع کےلئے اپنی دانش و تجربے اور فیصلہ سازی کے استعمال کا حق دیا گیا ہے اور بالخصوص سرکاری ہسپتالوں کو ’سیاسی مداخلت‘ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی اکثر معالجین کی جانب سے مخالفت کے باوجود یہ نظام کامیابی سے جاری ہے اور اِس سے خدمات کے معیار اور ترقیاتی امور کی ذیل میں اہداف حاصل کرنے کےساتھ وسائل کی بچت اور افرادی وسائل سے بھرپور
استفادے جیسی خوبیاں بھی حاصل ہوئی ہیں تاہم ہر نظام افراد کی شراکت سے کامیاب ہوتا ہے اور کوئی بھی نظام ایسی صورت میں کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ اُسے کامیاب بنانے کےلئے اجتماعی کوششیں نہ کی جائیں۔ ایک عام آدمی کے نکتہ¿ نظر سے ماضی و حال کی سرکاری ہسپتالوں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور ’ایم ٹی آئی‘ بننے کے بعد سے سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے‘ اِس نئے قانون کے نفاذ سے قبل سرکاری ہسپتالوں کے مالی و افرادی انتظامات اور تمام تر طبی سہولیات سے متعلقہ امور کی نگرانی صوبائی محکمہ¿ صحت کے ذریعے کی جاتی تھی۔ نئے قانون کے نفاذ کے بعد ’ایم ٹی آئی‘ کے تحت آنے والے ہسپتال محکمہ صحت کی نگرانی سے الگ کر کے ہر ہسپتال کےلئے تشکیل دیئے گئے ’بورڈ آف گورنرز‘ کے تابع ہو گئے جو اِن ہسپتالوں کے امور خودمختار اور آزادانہ طور پر دیکھتے ہیں۔ اِس سے صوبائی محکمہ¿ صحت کی توانائیاں‘ مالی وسائل اور وقت کی بچت ہوئی ہے‘ مذکورہ قانون کے مطابق ’ایم ٹی آئیز‘ حکومت سے سالانہ مالی وسائل حاصل کرتے ہیں جسے تکنیکی طور پر ’ون لائن بجٹ‘ کہا جاتا ہے اور اسے متعلقہ بورڈز کی وضع کردہ ترجیحات اور فیصلوں کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے تاہم صوبائی اسمبلی کی تحلیل اور صوبے میں نگران حکومت کے قیام کے بعد سے ’ایم ٹی آئیز‘ شدید مالی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ صوبائی محکمہ¿ خزانہ کی جانب سے ’ایم ٹی آئیز‘ کو صرف ملازمین کو تنخواہوں کے مطابق رقم فراہم کیا جا رہا ہے جو ظاہر ہے کہ ہسپتالوں کو فعال رکھنے کےلئے کافی نہیں ہے‘ خیبرپختونخوا کا سب سے پرانا اور بڑا طبی مرکز
لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر ایچ) پشاور‘ جسے صوبے کے پہلے ’ایم ٹی آئی‘ ادارہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اِن دنوں شدید مالی مشکلات کے دور سے گزر رہا ہے اور بعض شعبوں کے ملازمین کو گزشتہ تین ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہو رہی ہے‘ بروقت تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے طبی و معاون طبی عملے کی جانب سے مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج میں عدم دلچسپی ایک فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیڈی ریڈنگ اور دیگر ’ایم ٹی آئیز‘ انتظامیہ کی جانب سے صوبائی حکومت سے مالی وسائل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال اٹھارہ سو بستروں پر مشتمل ہے اور اِس کے عملے کی ماہانہ تنخواہیں 35کروڑ روپے ہیں‘یہی صورتحال دیگر ہسپتالوں کی بھی ہے جن کی کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں اور دیگر ضروری اخراجات کی ادائیگی کرنے کے بعد ہسپتالوں کے پاس اِس قدر فنڈز نہیں رہتے کہ وہ علاج کی خدمات فراہم کر سکیں اور اِس صورتحال سے بالخصوص وہ مریض متاثر ہو رہے ہیں جنہیں مفت ادویات فراہم کی جاتی تھیں۔ مالی مشکلات کے سبب مفت ادویات کی فراہمی کے سلسلے کو محدود کر دیا گیا ہے‘ نگران حکومت نے ایم ٹی آئیز سے متعلق حکمت عملی اور سرکاری ہسپتالوں کے فیصلہ سازوں کے طریقہ کار کو ختم کر کے پرانے طریقہ¿ کار کو بحال کرنے کی کوشش کی تاہم اس حوالے سے عدالت سے رجوع کیا گیا جس نے اعلامیہ مسترد کردیا‘ فی الوقت سیکرٹری صحت کی وساطت سے ’ایم ٹی آئیز‘ کے مطالبات محکمہ¿ خزانہ کو ارسال کر دیئے گئے ہیں‘ جہاں سے آخری خبریں آنے تک خاطرخواہ فنڈز ریلیز نہیں ہوئے اور اِس کی ایک وجہ صوبے کو درپیش معاشی بحران بھی ہے‘ مالی مشکلات اُور مالی وسائل میں کمی سے پیدا ہونے والا قضیہ صرف ’ایم ٹی آئیز‘ کو درپیش ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں دیگر سرکاری ہسپتال مالی مشکلات کا شکار نہیں۔ موجودہ صورتحال میں ’ایم ٹی آئیز‘ کو مالی وسائل روک کر اِسے ناکام بنانے کی کوشش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے علاج کی خدمات میں کمی اور اِن طبی خدمات کے معیار پر سمجھوتہ کسی بھی صورت ’عوامی مفاد‘ میں نہیں۔