انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات تک رسائی اِس حد تک عام ہو چکی ہے کہ تازہ ترین کرنسی ریٹس سے لیکر موسمیاتی احوال‘ سیاسی و معاشی صورتحال‘ بال کی کھال اُتارنے والے تجزئیات اور نت نئی معلومات سے لیکر درس و تدریس اور طب و صحت سے متعلق مواد تک فوری اور ہمہ وقت رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ اِنٹرنیٹ استعمال کرنے والے کسی بھی کم عمر یا بڑی عمر کے صارف سے سوال کریں تو اُس کی نظروں اور اُنگلیوں کے تال میل کے جواب میں ’گوگل‘ نامی سرچ انجن ’آن کی آن‘ میں جواب لئے حاضر ہو جاتا ہے اور یہ سب کچھ اِس لئے ممکن ہوتا ہے کیونکہ ’گوگل‘ ویب سائٹس کی معلومات بصورت فہرستیں (indexing)‘ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے اور معلومات ذخیرہ کرنے کا عمل دن رات جاری رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ صارفین تازہ ترین معلومات تک رسائی حاصل رہتی ہے لیکن تصور کریں کہ انٹرنیٹ کا یہ ظاہری چہرہ صرف ’4 فیصد‘ یا اِس سے بھی کم سرگرمیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ معلومات تک رسائی (browsing) کے عمومی طریقہ کار کے مقابلے ایک طریقہ ایسا بھی ہے جس میں معلومات فہرست (index) نہیں ہوتیں اور کسی ویب سائٹ کے مندرجات کی فہرستیں تیار نہ ہونے کی وجہ سے وہ صارفین تک قابل رسائی بھی نہیں ہوتا۔ بنیادی طور پر انٹرنیٹ رابطہ کاری میں 2 طرح کی خدمات (سہولیات) فراہم کر رہا ہے۔ ایک طرح کی خدمات وہ ہیں جن میں ہر ویب سائٹ اور ہر صارف اپنی اصل شناخت کے ساتھ انٹرنیٹ سے استفادہ کر رہا ہے اور دوسری قسم کی خدمات (سہولیات) وہ ہیں کہ جن میں صارفین کی شناخت پوشیدہ رکھنا ممکن ہے اور جہاں معلومات تک رسائی یا معلومات کی تشہیر اور مواد کی تخلیق کرنے والے اپنی شناخت پوشیدہ رکھ سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے اِسی پہلو کو ’ڈارک ویب (Darkweb) یا ڈارک نیٹ (Darknet) ‘ کہا جاتا ہے جس کا زیادہ تر استعمال اگرچہ ’مجرمانہ سرگرمیوں‘ کے لئے نہیں ہو رہا لیکن مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے آپسی رابطہ کاری اور چوری شدہ اور غیرقانونی مواد کی تشہیر و فروخت کے لئے اِس ’ڈارک ویب‘ کا استعمال کر رہے ہیں۔ اِسی ’ڈارک ویب‘ کے ذریعے رقومات کی ترسیل‘ لین دین اور دہشت گرد سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور اُن کی مالی سرپرستی بھی ہوتی ہیں جو ’سائبر جرائم‘ کا پیچیدہ رخ ہے کیونکہ ایسے جرائم کی گھتیاں سلجھانا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے لئے مشکل (چیلنج) تو ہے لیکن ناممکن ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ضروری نہیں کہ ’ڈارک ویب‘ کا ہمیشہ استعمال غیرقانونی سرگرمیوں ہی کے لئے کیا جائے بلکہ وہ سبھی حکومتی و غیرحکومتی ادارے جو اپنے آن لائن کام کاج‘ ملازمین اور منصوبوں کی تفصیلات وغیرہ خفیہ رکھنا چاہیں وہ بھی ’ڈارک ویب‘ ہی کا استعمال کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ڈارک ویب کا قریب ’90فیصد‘ استعمال جائز مقاصد کے لئے ہو رہا ہے۔
عموماً پوچھا جاتا ہے کہ کیا ’ڈارک ویب‘ کا استعمال محفوظ ہے اور کیا ’ڈارک ویب‘ سے استفادہ کرنے کے لئے کسی خاص مہارت‘ اجازت (رقم کی ادائیگی) اور کمپیوٹر آلات کی ضرورت ہوتی ہے؟ ایسے بہت سے سوالات کا جواب سمجھنے کے لئے ’انٹرنیٹ‘ کے کام کاج کو سمجھنا ہوگا جو اِس کی تخلیق کے نہایت ہی سادہ تصور سے بہت بلند اور مختلف ہو چکا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ سمجھنی ہوگی کہ فی الوقت دنیا میں 3 قسم کے طریقوں (ویب براو¿زرز) سے معلومات پھیلائی یا معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔ ایک ہے ’عمومی ویب‘ جسے ’سرفس ویب (surface web)‘ کہا جاتا ہے اور اِس میں ہر صارف اپنی شناخت (ip) کے ذریعے معلومات فراہم کر سکتا ہے یا معلومات تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ دوسری قسم ’ڈیپ سرفس (deep surface)‘ نامی ویب کی ہے۔ اِس کی خصوصیت یہ ہے کہ معلومات کو تلاش (search) نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ کہیں گہرائی میں پوشیدہ (ڈھک کر) رکھی جاتی ہیں اور صرف متعلقہ افراد ہی اُن تک دسترس حاصل کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں ’96 فیصد‘ معلومات رکھنے والے اِسی ’ڈیپ سرفس‘ کا اِستعمال کرتے ہیں جیسا کہ بینکار مالیاتی ادارے وغیرہ کیونکہ اِس میں معلومات تک رسائی خصوصی اجازت نامے (پاس ورڈز) اور کمپیوٹروں کو دی گئی خصوصی اجازت (انکرپشن) کے ذریعے دی جاتی ہے اِس لئے غیرمتعلقہ شخص اِن تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا اور تیسری قسم ’ڈارک ویب‘ یا ’ڈارک نیٹ‘ کی ہوتی ہے جس تک 1: مخصوص ویب براو¿زر کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ 2: اِس میں معلومات کا تبادلہ جن دو افراد یا مختلف افراد کے درمیان رہتا ہے اُس میں مداخلت یا رسائی ایک خاص عمل کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ 3: غیرقانونی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے ’ڈارک ویب‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ 4: انٹرنیٹ کی دنیا میں ’ڈارک ویب‘ کا حجم کتنا ہے یعنی اِسے کتنے صارفین استعمال کر رہے ہیں‘ یہ بات کوئی بھی نہیں جانتا کیونکہ ’ڈارک ویب‘ وہ ’اندھیر نگری‘ ہے جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ’ڈارک ویب‘ پر رکھا گیا مواد اُسی قدر تشہیر ہوتا ہے جس قدر اِس کا تخلیق کار چاہتا ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ایسے خصوصی آلات اور ماہر افراد ہوتے ہیں جو ’ڈارک ویب‘ کے اندھیروں میں ہونے والے جرائم کا سراغ لگا سکتے ہیں لہٰذا اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ ’ڈارک ویب‘ پر ہونے والے جرائم ہمیشہ راز رہتے ہیں تو یہ حقیقت نہیں بلکہ ایسے کئی طریقے اور آلات ہیں جن کی مدد سے ’ڈارک ویب سرگرمیاں‘ بھی اظہرمن الشمس ہو سکتی ہیں لہٰذا ’مہم جو‘ فطرت رکھنے والے نوجوانوں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ اُنہیں ’ڈارک ویب‘ کے بارے میں جو کچھ بتایا جا رہا ہے وہ ”پورا سچ“ نہیں اور ’ڈارک ویب‘ پر کی جانے والی حرکتوں کا پردہ فاش بھی ہو سکتا ہے۔
’ڈارک ویب‘ تک رسائی کے لئے خصوصی ’ویب براو¿زر (Browser)‘ کی ضرورت ہوتی ہے جسے ’Tor‘ کہا جاتا ہے۔ یہ براو¿زر اِس لحاظ سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ یہ کسی بھی طرح کی معلومات تک اپنی شناخت (ip) کے ذریعے براہ راست رسائی حاصل نہیں کرتا بلکہ یہ بہت سے دیگر ’براو¿زرز‘ یعنی بہت سی ایسی شناختوں (ips) کا بیک وقت استعمال کرتا ہے جو ’ڈارک ویب‘ والوں کے زیراستعمال ہوتی ہیں اور یوں قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کسی پیغام یا مواد کو جاری کرنے والے اصل صارف تک ”فوراً“ پہنچ سکیں اور اُسے ملکی یا عالمی سائبر قوانین کے مطابق سزا دی جا سکے لیکن انٹرنیٹ کی تصوراتی دنیا ہو یا حقیقت کی جمالیاتی دنیا‘ ہر عمل چاہے وہ جرم ہو یا نہ ہو‘ اُس کے ثبوت و شواہد کسی نہ کسی شکل میں باقی رہ جاتے ہیں اور وہ اپنے تخلیق کار کا ساری زندگی پیچھا کرتے ہیں۔