چین نے ہر شعبے میں پیچھے نہ رہنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور جس طرح وہ ترقی کے منازل طے کر رہا ہے اس کی مثال مشکل ہے۔امریکہ اور چین کے درمیان مختلف شعبوں میں مسابقت پہلے سے ہی جاری ہے اور اس دوڑ میں شامل ہونے والا نیا شعبہ خلا ہے۔ حالیہ برسوں میں چینی سائنس دانوں نے زیریں خلا میں اپنی تحقیق کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔ زیریں خلا زمین کے کرہ ہوائی اور خلا کے درمیان کا وہ حصہ ہے جس میں طیارے نہیں جا سکتے جب کہ راکٹ اس سے اوپر نکل جاتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چین اس حصے کو اپنی فوجی سرگرمیوں کے لیے استعمال میں لانا چاہتا ہے۔تازہ ترین رپورٹ کے مطابق چین 2030 سے پہلے چاند کی سطح پر انسان اتارنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ تیزی سے اپنے خلائی پروگرام کو وسعت دے رہا ہے۔چین کے بڑھتے ہوئے خلائی عزائم 1960 اور 1970 کی دہائی کی یادیں تازہ کرتے ہیں جب امریکہ اور اس دور کے سوویت یونین کے درمیان ایسے میں خلائی مسابقت جاری تھی جب دونوں ملکوں کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی تھی۔پچاس برس کے بعد آج کے منظر نامے پر بھی وہی صورت حال دکھائی دے رہی ہے۔ آج خلائی دوڑ میں چین امریکہ کے ایک ایسے ماحول میں مدمقابل ہے جب کہ معیشت، سائنس، دفاع سمیت مختلف شعبوں میں دنیا کی ان دو بڑی معیشتوں کے درمیان تنا ﺅبڑھ رہا ہے۔ امریکہ خلائی تحقیق میں کئی ملکوں کےساتھ تعاون کر رہا ہے اور ان کے خلابازوں اور سائنس دانوں کو زمین کے مدار میں گردش کرنے والے بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں قیام اور تجربات کرنے کی اجازت دے رہا ہے، جب کہ چین پر اس نے ان خدشات کے پیش نظر اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں کہ اس کے خلائی پروگرام کو فوج کنٹرول کرتی ہے۔چین نے حالیہ برسوں میں خلائی تحقیق کے اپنے پروگرام کو تیزی سے ترقی دی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں اس نے بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے مقابلے میں زمین کے مدار میں اپنا ایک خلائی اسٹیشن مکمل کیا جہاں گزشتہ چھ ماہ سے تین چینی خلاباز تجربات کر رہے ہیں اور رواں ہفتے تین نئے چینی خلاباز ان کی جگہ لینے کےلئے روانہ ہو ئے ہیں۔چین کی خلائی ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر لن ژیکیانگ نے پیر کے روز ایک نیوز کانفرنس میں ان تین خلابازوں کو متعارف کرایا جو خلائی سٹیشن میں پہلے سے موجود عملے کی جگہ لیں گے۔انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ چین کا خلائی سٹیشن تیانگونگ مکمل خلائی اسٹیشن ہے جو ہمارے مقاصد کی تکمیل کے لئے کافی ہے۔تاہم تیانگونگ، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے مقابلے میں کافی چھوٹا ہے۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن 16 حصوں پر مشتمل ہے جب کہ تیانگونگ کے صرف تین حصے ہیں۔ چین اپنے خلابازوں کو وہاں بھیج کر مستقبل کی دور دراز کی مہمات کے لئے ان کی تربیت کرنا چاہتا ہے۔روس اور امریکہ کے بعد چین دنیا کا تیسرا ملک ہے جس نے اکتوبر 2003 میں اپنا خلاباز، زمین سے باہر خلا میں بھیجا تھا۔ اس پہلے چینی خلاباز کا نام یانگ لیوی ہے۔چین کے صدر شی جن پنگ ، اپنے ملک کے خلائی پروگرام کو چین کے خلائی خواب کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین اپنے خواب کی تعبیر کے راستے پر چل رہا ہے۔چین چاند پر اپنا ایک اڈا بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جس کے لئے وہ 2030 تک وہاں انسان برادر مشن اتارنا چاہتا ہے۔چین نے کہا ہے کہ وہ خلائی تحقیق میں بین الاقوامی تعاون کا خواہش مند ہے۔ چینی خلائی ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر لی ینگلیانگ کا کہنا ہے کہ ہمیں امریکہ سمیت بین الاقوامی تعاون کی امید ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے ملک کا مستقل موقف خلا کو پرامن مقاصد کےلئے استعمال کرنا ہے‘ جس کیلئے ہم کسی بھی ملک یا ایرو اسپیس تنظیم کیساتھ تعاون اور بات چیت کےلئے تیار ہیں۔