پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے زیراہتمام پانچ شہروں (وفاقی دارالحکومت اِسلام آباد‘ ملتان‘ گلگت‘ کوئٹہ اور پشاور) میں بیک وقت ’یورپی فلموں‘ کی نمائش کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے‘ یہ فلمی نمائش ’چوبیس جون‘ تک جاری رہے گی‘ جس میں فلموں کے موضوعات اور وقت کے ساتھ ہونےوالی تبدیلیوں کے مختلف پہلوو¿ں پر غور بھی کیا جائےگا‘پاکستان کے فلم شائقین کو یورپ کی تہذیب و ثقافت دکھانے کی اِس ’انوکھی کوشش‘ کا مقصد ایک تو فلم شائقین کو سینما ہالز کی طرف راغب کرنا ہے اور اِس بات کی توقع بھی کی جا رہی ہے کہ مختلف موضوعات کی فلمیں پیش کرنے سے فلم شائقین کو نئے موضوعات دیکھنے کا موقع میسر آئےگا‘ذہن نشین رہے کہ وقت کے ساتھ فلم بینی کم نہیں ہوئی لیکن اِس کا طریق بدل گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سینما ہال سنسان ہو گئے ہیں‘ پاکستان میں سنیما کی ’زبوں حالی‘ کی بڑی وجہ کیبل نیٹ ورکس ہیں جن کی وجہ سے گھر گھر سینما ہال کھل گئے ہیں جبکہ چھ سے گیارہ انچ اسکرین کے سمارٹ موبائل فونز کے ذریعے بھی فلمیں دیکھنے کا رجحان عام ہوا ہے اِس سلسلے میں ’نیٹ فلیکس‘ ایمازون پرائم‘ یوٹیوب اور ڈیزنی پلس کے علاو¿ہ ’ڈائریکٹ ٹو ہوم (DTH)‘ سروسز کے ذریعے سینکڑوں کی تعداد میں فیچر و دستاویزی فلمیں کسی بھی صارف کے انگلی کے اشارے کی منتظر رہتی ہیں لطف اندوز ہونے والے سینما ہال جانے کی زحمت نہیں کرتے تو یہ سبھی حقائق پیش نظر رکھنے کے باوجود بھی ’پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس‘ قومی وسائل کا ضیاع کیوں کر رہا ہے؟ایک وقت تھا جب سینما ہال کے ٹکٹ گھروں کے باہر قطاریں ہوا کرتی تھیں۔ فلموں کی نمائش کے دن گنے جاتے تھے لیکن آج کے زمینی حقائق مختلف ہیں ’یورپی فلم فیسٹیول‘ کے عنوان سے ’فلمی جشن‘ کی ’واحد کشش‘ مشہور فلم سازوں‘ اداکاروں اور ہدایت کاروں کا کام بڑی سکرین پر دکھانا ہے لیکن یورپ کے اِن مشہور کرداروں کی اکثریت پاکستان میں غیرمعروف ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی فلمی صنعت (ہالی ووڈ) جو کہ ایکشن پر انحصار کرتی ہے پاکستان میں زیادہ مقبول ہے‘ یورپی فلمی صنعت دھیمے مزاج کی موضوعاتی فلمیں پیش کرتی ہے جس میں انسانی معاشروں کے قصے کہانیوں کو فلمی انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور یہ ایک خاص قسم (کلاسیکل) کا ذوق رکھنے والے فلم شائقین حلقوں میں بہت پسند کی جاتی ہیں۔ یورپی فلم فیسٹیول پاکستانی فلم بینوں کے لئے یورپی سنیما کی متنوع دنیا دریافت کرنے اور جدید یورپی معاشروں کی تشکیل کرنے والے ثقافتی و سماجی پہلوو¿ں اور مسائل سے آگاہ ہونے کا وسیلہ ہو سکتی ہے تاہم اِس ’انوکھی کوشش‘ سے کوئی ایسا انقلاب برپا نہیں ہوگا جس سے پاکستان کی بے جان فلمی صنعت کی رگوں میں خون دوڑنے لگے‘پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے فیصلہ سازوں کا کہنا ہے کہ یورپی فلموں کے انتخاب میں پاکستان کی ثقافت (مشرقی اقدار) کا بطور خاص خیال رکھا گیا ہے‘ یورپی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف اِمتیازی سلوک اگرچہ وہاں کی حکومتوں کی پالیسی نہیں لیکن یورپی حکومت کی جانب دی گئی ”مادر پدر آزادی¿ اِظہار“ کا مرکزی نشانہ مسلمان ہیں اور اِس ’آزادی¿ اظہار‘ کی پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کی جانب سے‘ سرکاری سطح پر‘ مذمت بھی کی گئی ہے‘ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے یہاں کسی بھی ملک بالخصوص یورپی فلموں کی نمائش کسی بھی طرح جائز (قابل تعریف اقدام) نہیں ہے‘ آج کی تاریخ میں جس طرح قدرتی آفات کا نزول ہو رہا ہے اور جس طرح ایک عام آدمی معاشی مشکلات اور مہنگائی کا سامنا کر رہا ہے تو یہ وقت جشن منانے یا تفریح کا نہیں ‘یورپی فلم فیسٹول کے لئے تیاریاں گزشتہ کئی مہینوں سے جاری تھیں اور آخری وقت (دو جون دوہزارتیئس) تک اِس بات کی اُمید تھی کہ اِس فلمی نمائش کو منسوخ کر دیا جائے گا لیکن ’پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس‘ نے فلمی نمائش کو محدود کرنے کی بجائے زیادہ وسیع کرتے ہوئے معروف فلم سازوں‘ اداکاروں‘ فلم مصنفین اور ماہرین تعلیم پر مشتمل ’پینل مباحثوں‘ کا بھی اہتمام کر رکھا ہے جس میں یورپی فلموں کے موضوعات اور اُن کی کہانیوں کے علاو¿ہ فلم سازی کے تکنیکی پہلوو¿ں پر بھی مختلف زاوئیوں سے غور کیا جائے گا۔ اِس پوری کوشش سے پاکستان کی فلمی صنعت کو کس قدر فائدہ ہوگا اور دوسری مرتبہ منعقد ہونے والے اِس یورپی فلمی میلے کا انعقاد کیوں ضروری سمجھا گیا‘ یہ اپنی جگہ ایک متنازع موضوع ہے۔ مذکورہ حکومتی ادارے کی پوری کوشش ہے کہ یورپی فلم فیسٹیول کو دلچسپ و پرکشش بنایا جائے فلموں کی اُردو زبان میں ڈبنگ اور ویڈیو کمپوزنگ بوتھ بنائے جائیں گے‘ اِس پوری کوشش کو پاکستان میں سنیما کے 75 سال مکمل ہونے کے جشن سے جوڑ کر جائز بنانے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ کوئی بھی یورپی ملک نہ تو پاکستان کا ہمسایہ ہے اور نہ ہی پاکستان کی فلمی صنعت کا یورپ کے ساتھ کسی بھی طرح کا تال میل بنتا ہے؛ اِس فلمی میلے کا آغاز اسلام آباد (دو جون) سے کرتے ہوئے چار جون کو ملتان کے یونیورسل سینما‘ دس جون کو گلگت میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی‘ سترہ جون کو پشاور کے نشتر ہال اور چوبیس جون کو کوئٹہ میں نوری نصیر خان کلچرل کمپلیکس میں فلموں کی نمائش کی جائے گی۔ علاو¿ہ ازیں مرکزی سطح پر سرمد کھوسٹ‘ ثانیہ سعید اور صائم صادق ’سوشل میڈیا‘ کے پاکستان میں روایتی میڈیا اور فلمی صنعت پر اثرات کے حوالے سے ’قومی مباحثے‘ میں بھی شریک ہوں گے ملک میں فنون لطیفہ بالخصوص فلم سازی کے شعبے سے جڑے فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ وقت کے ساتھ فلم بنانے اور فلم دیکھنے کے انداز تبدیل ہوئے ہیں۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی آڈیو ویژو¿ل ٹیکنالوجیز نے فلم سازی کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ’فلم ڈیٹابیس‘ نامی غیرسرکاری ادارے کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ 30 برس کے دوران ملک بھر میں ’846 سینما ہالز‘ ختم ہوئے ہیں‘ اِس وقت پورے پاکستان میں کل135 سینما ہالز ہیں۔ تیس برس قبل خیبرپختونخوا میں 68 سنیما ہالز تھے جن میں سے صرف 6 باقی ہیں۔ پنجاب کے 611 سینما گھروں میں سے 90 باقی ہیں جبکہ سندھ میں 39 اور بلوچستان میں 3 سینما ہالز ہیں۔ گلگت بلتستان (شمالی علاقہ جات) اور آزاد جموں و کشمیر میں کوئی سینما ہال نہیں ہے۔