وزارت ِخزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”مئی (دوہزارتیئس) میں 559 ارب روپے کے محصولات اکٹھا ہوئے ہیں جبکہ ہدف 621 ارب روپے کا تھا۔“ معلوم ہوا کہ ماہانہ ہدف کے مقابلے باسٹھ ارب روپے کم محصولات (ٹیکسیز) وصول ہوئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ جب کسی مہینے میں ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں ہوتا تو کمی بیشی اگلے مہینے کے ہدف میں پوری کر دی جاتی ہے اور چونکہ گزشتہ ماہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا اِس لئے رواں ماہ (جون دوہزارتیئس) میں ’ایک اعشاریہ چار کھرب روپے‘ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنا ہے تاکہ مالی سال دوہزار بائیس تیئس کے لئے ٹیکس وصولی کا مجموعی ہدف جو کہ 7.64 کھرب روپے ہے حاصل کیا جا سکے لیکن جب ہم گزشتہ مالی سال کے اِسی عرصے کے دوران ہوئی ایف بی آر وصولیوں کی رفتار و تاریخ دیکھتے ہیں تو عمومی (روائتی) اقدامات یہ ہدف حاصل ہوتا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی بڑی تعداد وہ ہے جن سے خودکار ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور اُن کے پاس ٹیکس دینے یا نہ دینے کا اختیار نہیں ہوتا جیسا کہ اگر کوئی شخص موبائل فون میں سو روپے کا ریچارج کرتا ہے تو اُس سے فوری طور پر ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ اِسی طرح ٹیلی ویژن کی لائسنس فیس اور سیلز و انکم ٹیکس بھی بجلی کے یوٹیلٹی بلوں کے ساتھ وصول کر لی جاتی ہے۔پاکستان کی معیشت سست روی کے دور سے گزر رہی ہے۔ کاروباری و تجارتی سرگرمیوں میں گرمجوشی نہیں۔ رواں مالی سال کی ’جی ڈی پی‘ شرح نمو کے اعداد و شمار اور معاشی ترقی کی توقعات میں فرق ہر دن وسیع ہو رہا ہے۔ اِس معاشی سست روی کا ایک پہلو ’خودساختہ مہنگائی و بحران‘ بھی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران معیشت میں نمایاں طور پر گراوٹ آئی ہے‘ جس کی بنیادی وجہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض (آئی ایم ایف پروگرام) کی توسیع سے متعلق غیر یقینی صورتحال ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی معاشی حالت ایسی نہیں کہ کاروبار یا افراد مزید ٹیکسوں یا زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کر سکیں۔ اِس حقیقت کا وزارت خزانہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ فی الحال ’آئی ایم ایف‘ کی امداد کا کوئی متبادل (پلان بی) نہیں‘ اور ظاہر ہے کہ جب کسی ایک ہی آمدنی کے ذریعے سے تمام تر توقعات وابستہ کر لی گئی ہوں اور وہاں سے بھی مثبت جواب نہ مل رہا ہو تو لامحالہ اِس سے وہاں قومی خزانے پر دباو¿ پڑتا ہے۔ ’ایف بی آر‘ اعداد و شمار سے متعلق وضاحت جاری ہونی چاہئے تاکہ عوام صورتحال سے آگاہ ہوں اور اُنہیں معلوم ہو کہ ملک کو درپیش معاشی بحران کے حل کے لئے کوششیں کس مرحلے میں ہیں۔ مالی سال کے آخری مہینے اگر ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں ہو رہا تو یہ بات بھی دیکھی جانی چاہئے کہ اِس ’شارٹ فال‘ سے پہلے مالی سال کے سات ماہ (جولائی دوہزاربائیس تا مئی دوہزارتیئس) کے درمیان چھ کھرب روپے سے زائد ٹیکس جمع کئے گئے اور باقی ماندہ عرصے (چھ ماہ) کے لئے سات ارب روپے سے زائد کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ رواں مالی سال کے وسط میں ٹیکس وصولی کے اہداف پر نظرثانی بھی کی گئی اور سات کھرب روپے محصولاتی ہدف کو پہلے 7.4 اور بعدازاں 7.6 کھرب روپے کر دیا گیا۔ بنیادی ضرورت ’ایف بی آر‘ میں خاطر خواہ اصلاحات کی ہے تاکہ پاکستان میں حسب آمدنی و بودوباش ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اِضافہ ہو۔ جب تک سرمایہ داروں پر اُن کی زیادہ سے زیادہ قوت ِبرداشت کے مطابق ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا اُس وقت ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔ اور یہ ہدف حکومتی اخراجات میں بچت و شفافیت یعنی خودانحصاری اور احتساب کے بغیر حاصل نہیں ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ کو بھی سمجھنا چاہئے کہ پاکستان میں ٹیکس دہندگان پر زیادہ سے زیادہ کس قدر بوجھ ڈالا جا سکتا ہے۔