پاکستان پیپلزپارٹی کی ’سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی‘ نے ملک کی پہلی ’ڈیجیٹل مردم شماری‘ کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے خدشات و تحفظات کا اظہار کیا ہے‘ سندھ کی حکمراں جماعت (پیپلزپارٹی) کا مو¿قف ہے کہ چھ برس بعد ہوئی ڈیجیٹل مردم شماری کا سیدھا سادا مطلب ماضی کے ’طریقہ کار‘ سے اختلاف ہے یعنی سال دوہزارسترہ میں ہوئی مردم شماری ٹھیک نہیں تھی جبکہ حالیہ مردم شماری میں ادارہ شماریات کا حوالہ دینا غلط ہے ۔ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے اعتراضات کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس معاملے کو ’مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی)‘ میں طے کرنے کے لئے ’ایڈوائزری کمیٹی‘ تشکیل دی گئی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس میں معترضین یعنی سندھ سے کسی کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ ’مردم شماری‘ کا عمل ہر بار متنازع ہوتا ہے اور چونکہ اِس کا تعلق ’آبادی کے لحاظ سے قومی وسائل کی تقسیم‘ سے متعلق ہے‘ اس کی وجہ سے ہر صوبے کی خواہش ہے کہ اُس کا آبادی کو زیادہ یا حقیقی آبادی کے طور پر شمار کیا جائے۔ وفاق پاکستان میں یہ نہایت ہی اہم معاملہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مردم شماری کا عمل مکمل طور پر ’ڈی سینٹرلائزڈ‘ ہے یعنی مردم شماری کی اِبتدائی منصوبہ بندی کو دیکھ لیں‘ ڈیجیٹل نقشے اور عملے کو تربیت ’ادارہ شماریات‘ نے دی جبکہ شمار کنندگان (فیلڈ ورکرز) صوبائی حکومتوں نے فراہم کئے۔ یوں مردم شماری کا عمل وفاق اور صوبوں میں مشترک طور پر ہوا۔ مردم شماری کے فیلڈ ورکرز صوبوں لئے گئے اور یہی وجہ ہے کہ آبادی کی گنتی میں مبینہ کمی بیشی کا وفاقی ادارے (ادارہ¿ شماریات) سے تعلق نہیں بنتا بلکہ یہ کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے مگر اس کا تعلق ادارہ شماریات سے نہیں ہے بلکہ یہ خالصتاً صوبوں کا معاملہ ہے اور اگر کسی صوبے کو اِس حوالے سے اعتراض ہے بھی تو اُسے چاہئے کہ وہ اپنے فراہم کردہ فیلڈ ورکرز کی کارکردگی اور اُن سے متعلق تربیتی و انتظامی امور کا جائزہ لے۔ عمومی تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ’مردم شماری‘ کا عمل ادارہ¿ شماریات نے سرانجام دیا ہے حالانکہ اس مشق میں تمام صوبوں کے محکمہ تعلیم کا عملہ مصروف عمل رہا جن کی مقامی اسسٹنٹ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز نگرانی کررہے تھے۔ صوبوں کی جانب سے مردم شماری پر بنیادی اعتراض کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہر صوبہ زیادہ آبادی کی صورت
قومی وسائل کی تقسیم میں ’بڑا حصہ‘ چاہتا ہے چونکہ قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے مطابق پاکستان کے کل وسائل کا 82 فیصد آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوتا ہے اِسی لئے ہر صوبہ اپنی آبادی زیادہ سے زیادہ شمار کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جتنی آبادی اُتنے پوائنٹس اور اُتنا ہی نہ صرف ’این ایف سی‘ میں حصہ بلکہ پارلیمان میں اُتنی ہی زیادہ نشستیں (نمائندگی) بھی زیادہ ہوگی۔ ایک صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی صوبے کی آبادی میں دانستہ اضافہ کیا جاتا ہے تو اِس سے دوسرے صوبوں کی حق تلفی ہوگی‘ جس کے چار آئینی پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ آئین کے آرٹیکل اکیاون کے مطابق پارلیمنٹ میں سیٹوں کی تقسیم‘ دوسرا یہ کہ انتخابی حلقہ بندیاں‘ تیسرا یہ کہ انتخابی عمل اور چوتھا یہ کہ ’این ایف سی‘ ایوارڈ میں حصہ داری کا تعین مردم شماری سے ہوتا ہے۔ سال دوہزارسترہ‘ اُنیس سو اٹھانوے یا اُنیس سو اکیاسی اور اِسے قبل ہوئیں ’مردم شماریوں کا طریقہ کار تبدیل تھا۔ حالیہ مردم شماری چونکہ ملکی تاریخ کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری تھی اور اِس میں کوائف (ڈیٹا) فوری طور پر حاصل ہو رہا تھا اِس لئے شماریات کی حد تک غلطی کی گنجائش ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ ماضی میں چونکہ کوائف (ڈیٹا) اکٹھا کرنے کے بعد اِس کا مینول طریقے سے اندراج کیا جاتا تھا اِس لئے غلطیاں ہو سکتی تھیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مینول طریقے سے ڈیٹا جمع کرنے کی وجہ سے ’حتمی نتیجہ‘ آتے آتے دوسری مردم شماری کا وقت آ جاتا تھا جیسا کہ 1981ءمیں دیکھا گیا۔یہ اعزاز اپنی جگہ اہم اور قابل ذکر ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان ڈیجیٹل مردم شماری کروانے والا پہلا ملک ہے۔ اس مرتبہ ایک اہم تبدیلی یہ کی گئی تھی کہ لوگوں کو خود ’آن لائن‘ مردم شماری کے
کوائف درج کرانے کا اختیار دیا گیا تھا۔ علاو¿ہ ازیں مردم شماری کے عمل میں عدم شمولیت کی شکایت کے لئے ڈیجیٹل ہیلپ لائن کی سروس بھی دی گئی تاہم جب کوئی عمل سیاست کی نذر ہوجائے تو چاہے اُس کے لئے کتنا بھی ’سپر فول پروف سسٹم‘ بنا لیا جائے لیکن وہ مختلف محرکات کی بنا پر متنازع ہو ہی جاتا ہے۔ مردم شماری غیر متنازع صرف ایک ہی صورت میں ہوسکتی ہے کہ حکومت آبادی کی بنیاد پر قومی وسائل کی تقسیم کی آئینی شق میں ترمیم کر دے اور آبادی کے تناسب سے بیاسی فیصد قومی وسائل کی تقسیم کی بجائے کوئی نیا طریقہ¿ کار وضع کیا جائے۔ صوبے زیادہ مالی وسائل تو چاہتے ہیں لیکن انسانی ترقی (افرادی قوت) میں زیادہ سرمایہ کاری نہیں کرتے اور نہ ہی افرادی قوت میں سرمایہ کاری سے متعلق اپنی کارکردگی و ترجیحات کا احتساب کرتے ہیں! دوسری اہم بات یہ ہے کہ ’کراچی اور پنجاب میں دوبارہ گنتی کی گئی لیکن سندھ کے تحفظات کے باوجود اِس کے مختلف اضلاع میں دوبارہ گنتی نہیں کی گئی جس کے کے باعث معاملہ سیاسی شکل اختیار کر گیا ہے حالانکہ اِس کا سراسر تعلق انتظامی امور سے ہے۔ مردم شماری کو غیرمتنازعہ اور درست طریقہ کار سے سرانجام دینے کے لئے اِس کا عمل سال بھر جاری رہنا چاہئے اور ڈیٹا (کوائف) اکٹھا کرنے کی مدت زیادہ رکھنی چاہئے۔ مردم شماری کے دوران صوبوں کو اعتراضات کا حق دیا جائے اور مردم شماری مکمل ہونے کے بعد اعتراضات کو نظرانداز کرنا چاہئے اور چونکہ مردم شماری تنازع کی بنیاد ’این ایف سی ایوارڈ‘ اور ’پارلیمان میں نشستیں (نمائندگی)‘ ہے اِس لئے بیاسی فیصد قومی وسائل کی تقسیم آبادی پر کرنے کی بجائے اِسے کم کر کے پچاس فیصد پر لایا جائے اور قومی وسائل کی تقسیم میں ’این ایف سی‘ کے دیگر عمومی عوامل کو بڑھایا جائے جس سے صوبوں کے درمیان اپنی آبادی زیادہ دکھانے کے رجحان میں کمی آئے گی۔ ویسے دیکھا جائے تو مردم شماری کی اہمیت کئی حوالوں سے مسلمہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اس ضمن میں بھرپور منصوبہ بندی کے بعد یہ مرحلہ سرانجام دیتے ہے کیونکہ کسی بھی ملک میں شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنانے کےلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک مخصوص علاقے میں کتنے افراد سکونت پذیر ہیں۔