سپینش نژاد امریکی ادیب ’جارج سانتایانہ نے کہا تھا کہ ”صرف اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے ’غیرتعلیم یافتہ‘ رہ جاتے ہیں!“ یعنی بچوں کی تعلیم کے لئے ضروری ہے کہ اُنہیں روایتی اور غیرروایتی طریقوں سے تعلیم دی جائے۔ تعلیمی نظام میں اہم سمجھے جانے والے دیگر عناصر کے مقابلے والدین اور بچوں کے درمیان تعلق کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور یہی تعلق بچوں کے سیکھنے (تعلیم) کے عمل پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ اگر والدین تعلیم یافتہ ہیں تو اُنہیں اِس تصور پر غور کرنا چاہئے کہ پوری دنیا میں اُن کے علاوہ کوئی بھی دوسرا شخص‘ چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو لیکن والدین کی طرح وہ بچوں کی بہترین طریقے و سلیقے سے تعلیم یا رہنمائی نہیں کر سکتا۔ اِس حوالے سے اساتذہ کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ پھر بھی جب والدین اساتذہ کو مسیحا سمجھتے ہیں تو معلم دل و جان سے محنت کرتے ہیں لیکن جہاں اساتذہ کی بے توقیری کی جائے وہاں تعلیم کا عمل خاطرخواہ کامیابی سے سرانجام نہیں پاتا۔ بچوں کو سکول بھیجنا ایک روایت بن گئی ہے۔ مغربی معاشروں میں یہ بحث جاری ہے کہ جب والدین اپنے بچوں کو سکول بھیج رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت والدین اور بچوں کے درمیان اِس دوران منقطع ہونے والا تعلق اُن کے سیکھنے کی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے کیونکہ تعلیم صرف پڑھنے کا نہیں بلکہ تربیت کا بھی نام ہے جس کے لئے والدین اور بچوں کے درمیان جذباتی تعلق خاص اہمیت رکھتا ہے۔ سردست قضیہ اِس بات کا نہیں کہ والدین تعلیم یافتہ ہیں یا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ انتہائی پڑھے لکھے والدین نے بھی یہ روش اپنا لی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ اُن کی تربیت کے لئے دوسروں کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں جبکہ جذباتی و تعلیمی نشوونما یقینی بنانے کے لئے ضروری محبت‘ توجہ اور فکر کی کمی ہے۔ امریکہ میں کم عمری کے بچوں کے لئے ہوم سکولنگ کا قانونی طور پر یعنی لازماً بندوبست کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں والدین تین سال کی عمر سے ہی اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے بے چین ہو جاتے ہیں اور بچوں کو دوسروں کے حوالے کر کے سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک فریضہ خوش اسلوبی سے سرانجام دے دیا ہے۔ یوں انتہائی کم عمری سے ہی بچہ گھر سے باہر تعلیم حاصل کرنے لگتا ہے جبکہ ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی والدین میں اِس رجحان کو تیزی سے پذیرائی مل رہی ہے۔۔ آج ایسے والدین کی کثرت ہے جو بچوں سے جسمانی اور جذباتی طور پر دور ہیں جب وہ انہیں سکولوں اور ساتذہ کے حوالے کرتے ہیں تو درحقیقت وہ بچوں کو خود سے الگ کر رہے ہوتے ہیں اور اِس سے بچوں اور والدین کے درمیان تعلق توانا نہیں بلکہ ہر دن کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ غیر صحت مند عمل ہے۔ والدین اور اساتذہ کی ملاقاتوں میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ والدین بچوں کی خراب تعلیمی کارکردگی کے ذمہ داری قبول نہیں کرتے جبکہ اساتذہ کا زور اِس بات پر ہوتا ہے کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے اور ماں کہتی ہے کہ یہ اساتذہ اور سکول کی ذمہ داری ہے کہ وہ اُس کے بچے کی تعلیم و تربیت کریں۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں اکثر والدین سکول انتظامیہ اور اساتذہ کو کہتے ہیں کہ وہ بچوں کی تعلیم سے متعلق کسی بھی معاملے پر انہیں بذریعہ فون مطلع نہ کریں اور ایسے والدین اپنے بچوں کی تعلیم و کردار سازی کے لئے صرف اور صرف سکولوں اور اساتذہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ایسے لاپرواہ والدین اپنے بچوں کی بات بھی نہیں سنتے ۔ اِس صورت میں نفسیاتی و جذباتی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جن سے تعلیم اور اخلاقی نشوونما کا معیار متاثر ہو رہا ہے۔ جب والدین اپنے بچوں سے بدسلوکی کو نظرانداز کرتے ہیں یا بچوں سے لاپرواہی کا سلوک ہوتا ہے تو اُنہیں نظم و ضبط کا پابند رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ والدین کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی‘ لاپرواہی اور جذباتی لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں جس کی وجہ سے خون کے رشتے کھوکھلے اور تربیت کے انداز مصنوعی ہو چکے ہیں۔ معاشرے کو نہ حقیقی معلم میسر ہیں اور نہ ہی مثالی والدین جو بچوں میں تعلیم کے ساتھ لگن اور لگاو¿ پیدا کریں۔ اُنہیں الفاظ نہیں بلکہ الفاظ کے معنوں سے روشناس کرائیں۔ المیہ ہے کہ ہم نے الفاظ تو سیکھ لئے ہیں لیکن الفاظ کے مطالب اور معانی نہیں سیکھ سکے۔ اِسی طرح والدین اپنے بچے کے لئے پہلے معلم‘ پہلے وکیل‘ پہلے محافظ اور پہلا محرک ہوتے ہیں جو اُن کی ذہنی و فکری اور جذباتی مجموعی ترقی کے معاون و مددگار لیکن ہمراز و رہنما ہوتے ہیں۔ والدین اور بچوں کے درمیان تعلق صرف اُسی صورت تعلیم و تربیت کو معنویت دے سکتا ہے جب کہ ’ہوم سکولنگ‘ یعنی گھر سے تعلیم و تربیت کا آغاز ہو اور ہمارے گھر ایسے تعلیمی مراکز میں تبدیل ہو جائیں جہاں جھوٹ‘ جھگڑے‘ تلخ کلامی‘ بدزبانی اور تشدد کی مثالیں نہیں بلکہ بچوں کے سامنے والدین اور بہن بھائیوں کی صورت پیار و محبت کی مجسم جیتے جاگتے عکس موجود ہوں۔ یہی ’قوس قزح‘ تعلیم و تربیت کی معنویت اور اِس کی تکمیل کا باعث بن سکتی ہے۔اور اسی صورت میں ہی ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھ سکتا ہے جہاں تعلیم و تربیت کے ذریعے نئی نسل کو مستقبل کے لئے اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ پورے معاشرے کے لئے مفید شہری ثابت ہوں۔