ڈالر کا متبادل

پاکستان میں تعینات روس کے سفیر ڈینیلا گینچ (Danila Ganich) نے ’امریکی ڈالر‘ کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ”ترقی پذیر ممالک کو ڈالر کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے مشترک لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے۔“ ڈینیلا گینچ نے اپنے ایک روزہ ’دورہ¿ پشاور‘ کے موقع پر جامعہ پشاور میں سیمینار سے خطاب کیا جبکہ وزارت ِبلدیات کی جانب سے ظہرانے میں شرکت کی اور یونیورسٹی (لیڈیز) کلب میں پودا لگا کر ’دوستی شجرکاری مہم‘ میں حصہ لیا۔ اُنہوں نے فلسفی شاعر و مجسمہ ساز غنی خان کے مزار پر حاضری‘ عجائب گھر کا دورہ اور پشاور شہر کے پرانے حصوں کا دورہ بھی کیا اور دن کے اختتام سے قبل ’پشاور کی مہمان نوازی‘ اور یہاں کے تاریخ و ثقافت سے جڑے تحائف کی صورت بہت سی یادیں ہمراہ لئے رخصت ہوئے یقینا وہ پشاور میں زیادہ وقت گزارنا چاہتے تھے اور ایک موقع پر اُنہوں نے غیررسمی بات چیت کے دوران مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقاتوں کی خواہش کا اظہار بھی کیا ۔روس کے سفیر ڈینیلا گینچ کی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کھڑے کھڑے ملاقات اور تین منٹ دورانئے کی مختصر بات چیت کے دوران ہوئے تین سوالات کی صورت پاک روس تجارتی تعلقات اور روس و چین تعلقات کے حوالے سے جو مو¿قف سامنے آیا اُس کے مطابق روس چاہتا ہے کہ پاکستان کے تجارتی تعلقات کو وسعت دی جائے۔ روس کے سفیر نے کہا کہ ”روس اور پاکستان کے درمیان تجارت کو حجم جو 1990ءکی دہائی میں نصف ارب ڈالر تھا اُسے بڑھا کر ایک ارب ڈالر کر دیا گیا ہے۔“ ۔ پاکستان کے ساتھ روس کی تجارت کا حجم بمشکل ایک ارب ڈالر ہے! اِس تجارتی توازن کو پاکستان میں حق میں کرنے کے لئے جس قدر تعاون اور کوششوں کی ضرورت ہے اُسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ روس کے سفیر نے انگریزی زبان میں سرسری اور روائتی باتیں کیں جیسا کہ یہ کہنا کہ ”پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور یہ تعلقات اِس مقام پر نہیں رکیں گے بلکہ (دونوں ممالک کی قیادت میں اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ) دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے گا۔ روس کے سفیر کی سب سے زیادہ دلچسپ بات وہ چند جملے تھے جو اُنہوں نے ایک ہی سانس میں ادا کئے اور یہی وہ حقیقت ہے‘ جسے سمجھ کر صرف روس اور پاکستان ہی نہیں
 بلکہ ترقی پذیر ممالک امریکہ پر انحصار کی صورت ’ڈالر کی غلامی‘ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ ڈینیلا گینچ نے کہا کہ روس امریکہ اور مغربی ممالک سمیت کسی کا مخالف نہیں بلکہ روس اپنے وسائل پر اپنا اختیار اور علاقائی و اقتصادی خودمختاری چاہتا ہے۔ اُنہوں نے ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ بھی لگایا اور کہا کہ روس ’پاکستان نواز‘ اور ’چین نواز‘ ہے اور یہ تاثر دینا غلط (گمراہ کن) ہے کہ روس کسی بھی ملک کا دشمن ہے۔ ڈینیلا گینچ نے کہا کہ روس کی نظر میں پاکستان ایک دوست اور قابل اعتماد شراکت دار ہے اور روس پاکستان سے ہر سطح اور ہر طرح کے رابطوں کا خواہاں ہے۔ انہوں نے روس پاکستان تعلقات میں ہوئی تازہ ترین پیشرفت سے صحافیوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ روس اور پاکستان کے درمیان عوام سے عوام اور مختلف تجارتی شعبوں کے درمیان روابط کے قیام و فروغ پر اتفاق ہو چکا ہے اور اِس سلسلے میں خیبر پختونخوا حکومت اور ماسکو (روسی حکومت) کے درمیان رابطے کے قیام پر غور کیا جا رہا ہے کہ اِسے کس طرح عملاً ممکن بنایا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے ’اسلاموفوبیا‘ کا نام لئے بغیر اشارتاً کہا کہ ’روس متعصب (عدم برداشت) اور عدم توازن‘ سے پیدا جنم لینے والے فکری و عملی ماحول کو تبدیل کرنا چاہتا ہے جس کے لئے وہ دوست ممالک سے ہر ممکنہ تعاون کر رہا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ممالک کے درمیان تجارتی روابط صرف خرید و فروخت اور سازوسامان کی نقل و حمل پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ اِن تعلقات میں ’عوام سے عوام‘ کے روابط خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر ڈینیلا گینچ نے خاص زور دیتے ہوئے کہا کہ ”لازما ً(definitely) عوام سے عوام کے رابطے مضبوط ہونے چاہئے اور اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ .... ”وہ روس میں زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستانیوں کی بھی خواہش ہے کہ روس کے ساتھ
 تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہو اور زیادہ سے زیادہ روسی باشندے (سیاح و سرمایہ کار) پاکستان میں دیکھے جائیں۔“ روس سے متعلق رائے عامہ اور ذرائع ابلاغ کے کردار سے متعلق ڈینیلا گینچ نے کہا کہ ”ذرائع ابلاغ روس کے حالات اور روسی قیادت کی سوچ بارے جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ حقیقت کا آئینہ دار نہیں اور روس چاہتا ہے کہ عوام (دنیا) اپنی ذرائع ابلاغ کے جانبدار نکتہ¿ نظر سے نہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے روس کے حالات کو دیکھے۔“ سفیر ڈینیلا گینچ کا کہنا تھا کہ روس پاکستان اور مسلم دنیا کے ساتھ کھڑا ہے۔ روس میں مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے جو دیگر مذاہب کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہی ہے اور ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کرتی ہے۔ روس اسلاموفوبیا پھیلانے والے مواد کی شدید مذمت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسلام مخالف سازشوں کا ’اظہار رائے کی آزادی‘ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی شعبے میں تعاون جاری ہے اور پاکستان و روس کی مشترکہ فوجی مشقوں کے علاوہ پاکستان کے مختلف فوجی تربیتی مراکز میں روس کے نوجوان فوجی تربیت حاصل کر رہے ہیں‘ جو دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی عمدہ مثال ہے۔ ڈینیلا گینچ کے بقول ’روس عالمی طاقت ہے لیکن روس پاکستان ہی کی طرح ایک ترقی پذیر ملک ہے اور عالمی معاشی مندی سے پیدا ہونے والے حالات (بحرانوں) سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک (روس و پاکستان) ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اُٹھائیں اور تعلیم‘ تحقیق و ترقی (ایجوکیشن‘ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) کے شعبوں میں ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کریں۔ روس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو بھی سراہتا رہا ہے‘ جس میں آٹھ ہزار سے زیادہ جانی اور اربوں ڈالر کے معاشی نقصانات کی وجہ سے پاکستان کی معاشی ترقی تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اِس مشکل سے نکلنے کی واحد صورت یہی ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص چین‘ ایران اور روس کے ساتھ علاقائی تجارت اور عوام سے عوام کے رابطوں میں اضافہ کرے۔ ڈینیلا گینچ نے ایک موقع پر یہ سوال بھی کیا کہمجھے اِس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ جب ’ایران پاکستان گیس پائپ لائن‘ بچھا بھی دی گئی ہے اور پاکستان توانائی کے بحران اور مہنگائی کا بھی شکار ہے تو پھر اِس ’گیس پائپ لائن‘ سے فائدہ کیوں نہیں اُٹھایا جا رہا؟‘