قومی اقتصادی کونسل نے بجلی کی بچت اورسورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ ملک بھر میں یکم جولائی سے تمام مارکیٹیں، تجارتی مراکز اور دکانیں رات آٹھ بجے بند کردی جائیں گی۔ تاہم میڈیکل سٹورز، تندور اورہوٹلوں پر پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس سال کے آخر تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ایک سو ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ ایسی صورت میں تھرمل پاور سٹیشنوں کے لئے تیل کی فراہمی مشکل ہوجائے گی اور بجلی طلب کے مقابلے میں کم پیدا ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ قوموں کے ساتھ ہمسری کے لئے ہمیں اپنے طور و طریقے بدلنے ہوں گے۔دوسری جانب تاجر تنظیموں نے دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرمیوں میں زیادہ تر لوگ شام کے بعد خریداری کرتے ہیں۔جبکہ دن کو شدید گرمی کی وجہ سے لوگ گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ حکومت کا فیصلہ ناقابل عمل ہے۔ سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کوئی نیا نہیں، دنیا کے مختلف ملکوں میں توانائی کی بچت کے ایسے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ماضی میں گھڑیاں بھی آگے پیچھے ہوتی رہی ہیں۔ہوٹلوں، ریستورانوں اور شادی ہالوں کی بندش کے اوقات بھی مقرر ہوتے رہے۔ لیکن توانائی کی پیداوار بڑھانے اور ملکی ضروریات پوری کرنے کے لئے بدقسمتی سے آج تک کچھ نہیں کیا جاسکا۔گزشتہ تیس سالوں کے اندرملک کی آبادی میں اضافہ تو ہوا ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کوئی ڈیم بنایاگیا نہ ہی پانی سے بجلی پیدا کرنے کا کوئی بڑا منصوبہ شروع کیاگیا۔تھرمل بجلی گھروں کی خریداری پر ماضی میں اکتفا کیاگیا۔ چونکہ تیل ہم ڈالر کے عوض دوسرے ملکوں سے خریدتے ہیں۔ڈالرکی قیمت بڑھنے، تیل کے نرخوں میں اضافے اور ہمارے اپنے ہاں افراط زر کی وجہ سے قیمتی زرمبادلہ کے ذخائر تیل کی خریداری پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی قیمت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہمارے ہاں پانی سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے وہ چار پانچ روپے فی یونٹ ہے‘ سوچنے کی بات ہے کہ قدرت نے ہمیں آبی وسائل سے نہایت فیاضی سے نوازا ہے۔ پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کیوں شروع نہیںکئے جاتے ، اس کامطلب یہ ہر گز نہیں کہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے یکسر ختم کر دئیے گئے ہیں، بلکہ اس وقت بھی کئی منصوبوں پر کام جاری ہے،اصل مسئلہ ان منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرنے کی بھی ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ توانائی کے ماحول دوست اور سستے منصوبوں کیلئے مالیاتی ادارے بھی بخوشی اور کم شرح سود پر قرضہ دینے سے نہیں ہچکچاتے۔دکانوں کی سرشام بندش مسئلے کا دیرپا حل نہیں۔حکومت نے وسطی ایشیا کی اسلامی ریاستوں سے سستے داموں تیل، بجلی اور گیس لانے کا معاہدہ بھی کیا تھا۔ ایران کے ساتھ بھی معاہدے پر دستخط ہوگئے تھے ۔ سطحی اور وقتی اقدامات کے بجائے بڑھتی ہوئی آبادی کی توانائی کی ضروریات کوپورا کرنے کےلئے بڑے آبی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ توانائی بروقت اور بوقت ضرورت ملے گی تو کارخانے لگیں گے۔لوگوں کو روزگار ملے گا۔صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ درآمدات بڑھیں گی تب ملک خوشحال ہوگا۔