ملک کا مجموعی سرکاری قرض 593 کھرب 40 ارب سے تجاوز کرگیا

مارچ کے آخر میں ملک کا مجموعی سرکاری قرض 592 کھرب 40 ارب روپے تک پہنچ گیا، جس میں 350 کھرب 7 ارب روپے کا ملکی قرضہ اور 241 کھرب 70 ارب روپے یا 85 ارب 20 کروڑ ڈالر تک کے بیرونی قرضے شامل ہیں۔

23-2022 کے اقتصادی سروے کے حوالے سے بتایا گیا کہ ملکی قرضوں کے اندر حکومت اپنے مالیاتی خسارے کی مالی اعانت اور قرض کے میچیورٹی کی ادائیگی کے لیے طویل مدتی قرض کی ضمانتوں خاص طور پر فلوٹنگ ریٹ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (پی آئی بیز) اور سکوک پر انحصار کرتی ہے۔

یاد رہے کہ حکومت 527 ارب روپے کے ٹریژری بلز ریٹائر بھی کرچکی ہے۔

سروے کے مطابق حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے واجب الادا قرضوں میں سے 310 ارب روپے واپس کردیے، جولائی 2019 سے اسٹیٹ بینک کے مجموعی قرضوں کی ریٹائرمنٹ 20 کھرب روپے رہی۔می مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے ساتویں اور آٹھویں جائزوں کے تحت تقریباً ایک ارب 16 کروڑ ڈالر کی رقم ملی۔

اسی طرح ایشیائی ترقیاتی بینک سے بلڈنگ ریزیلینس ود ایکٹو کاؤنٹر سائکلیکل ایکسپینڈیچرز (بریس) پروگرام کے تحت ڈیڑھ ارب ڈالر موصول ہوئے۔

ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) نے بریس پروگرام کے کے تحت ملنے والی رقم میں 50 کروڑ ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی۔

مزید برآں، کمرشل بینکوں کے ایک ارب 90 کروڑ ڈالر کے قرضوں کو بھی ری فنانس کیا گیا۔

حکومت نے چین اور سعودی عرب دونوں سے 3 ارب ڈالر کےڈپازٹ کو رول اوور کیا، جو بجٹ کی اعانت کے لیے استعمال کیے گئے۔

اس کے علاوہ سعودی تیل کی تقریباً 90 کروڑ ڈالر کی سہولت کو ماہانہ تقریباً 10 کروڑ ڈالر کے حساب سے استعمال کیا گیا۔