وطن عزیز میں یہ رواج عام ہوچلاہے کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کے قریب آتے ہی وعدے وعید کاسلسلہ تیز کردیتی ہیں اورپھر اس میں بہت ہی مبالغہ سے کام لیا جاتاہے ووٹروں کو لبھانے کے لئے جب پارٹی کاانتخابی منشور تیار کیاجاتاہے تو اس میں ان گنت منصوبے رکھے گئے ہوتے ہیں ایسے محسوس ہوتاہے کہ ان منصوبوں کی تکمیل کے بغیر عام لوگوں کے مسائل کسی بھی صورت حل نہیں ہوسکتے پھر جب کوئی جماعت برسراقتدار آتی ہے تو سب سے پہلے اپنے منشور کو ہی طاق نسیاں کردیتی ہے ‘وعدے بھلا دیئے جاتے ہیں اورپھر ذاتی مفاداتی ایجنڈے پر کام شروع ہوجاتاہے یہی وجہ ہے کہ آزاد ی کے ساڑھے سات عشرے بعد بھی عام لوگوں کی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکی ہے آج تک کوئی ایسا میکنزم ہی نہیں بن سکاکہ کوئی ادارہ سیاسی جماعتوں کو بٹھاکر مافوق الفطرت دعوﺅں پر مشتمل منشور کے حوالہ سے سوال وجواب کرسکے اورمنشور پرعدم عملدآمدکی صورت میں بازپرس کی جاسکے اس سلسلہ میں گذشتہ دنوں بھارت سے ایک دلچسپ خبر موصول ہوئی ہے جس کے مطابق بھارتی ریاستوں گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں پر نیا قانون بنانے کی تیاری پوری کرلی ہے‘الیکشن کمیشن ایک ضابطہ اخلاق بنائے گا، جس کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے فنڈ کا انتظام کیسے کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی الیکشن کمیشن انتخابات سے قبل رائے دہندگان کو مرعوب کرنے کےلئے سیاسی جماعتوں کے جاری کئے جانے والے منشور کے رہنما اصولوں میں تبدیلیاں کرے گا جو ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کا حصہ ہیں۔ اس سے انتخابی وعدوں پر مالی شفافیت بڑھے گی اور رائے دہندگان کو اپنے لیڈر کے انتخاب کے سلسلے میں فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ میں یہ ترامیم جلد ہو سکتی ہیں۔ اس کے بعد پارٹیوں کو انتخابی وعدوں کے اخراجات کے ذرائع کا اعلان کرنا ہوگا۔ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں لوگوں کو رجھانے و لبھانے والے رجحان کی وجہ سے جمہوریتوں کو شدید مائیکرو اکنامک بحران کا سامنا ہے چنانچہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے اخراجات کے ذرائع کے بارے میں انکشاف کے لئے ایک معیاری فارمیٹ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوںکو انتخابی منشور بنانے کا پورا حق ہے لیکن اس میں مستند اور درست معلومات ہونی چاہئیں۔ اب اس مقصد کے لئے بھارت میں الیکشن کمیشن نے اس سلسلے کا ایک نیا فارمیٹ تیار کیا ہے، اس میں رقم کی معقولیت اور اس کے ذرائع اور قرض لینے پر بجٹ مینجمنٹ ایکٹ کی حدود میں خرچ کی معقولیت جیسی چیزیں شامل کی گئی ہیں الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی وعدوں پر پارٹیوں سے شفافیت کی ضرورت کے علاوہ، تیار کئے گئے معیاری فارمیٹ میں بر سر ا قتدار سیاسی جماعت کو اپنی مالی حالت پر رپورٹ کارڈ پیش کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔اب بھارت میں اگر سیاسی جماعتیں کوئی انتخابی وعدہ کرتی ہیں تو انہیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ اگر وہ اقتدار میں آئیں تو وہ اس وعدے کو کیسے پورا کریں گی، اس پر کتنا خرچ آئے گا؟ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ اس کے لئے کیا وہ ٹیکس بڑھائیں گے یا نان ٹیکس ریونیو میں اضافہ کریں گے، اسکیم کے لئے اضافی قرض لیں گے یا کوئی اور طریقہ اختیار کریں گے؟ انتخابی منشور میں ایک طے شدہ پروفارما ہوگا، جس میں نہ صرف پارٹیوں کے انتخابی وعدے دیئے جائیں گے بلکہ ان کی تکمیل کیسے کی جائے گی، اس کی تفصیلات بھی دی جائیں گی۔سیاسی جماعتوں کو بتانا ہو گا کہ ریاست کی مالی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ وعدے کیسے پورے ہوں گے ؟ بھارت پاکستان بنگلہ دیش میں انتخابات میں یکساں نوعیت کے مسائل کاسامنارہتاہے اگرہم اپنے ملک کی بات کریں تو جنرل ضیاءکے دور میں تو الیکشن کمیشن عملی طورپر بے اختیار اوربے توقیر ہوکررہ گیاتھا اس کے بعدجب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے دودو مرتبہ حکومتیں کیں تو ان ادوار میں بھی الیکشن کمیشن کاکوئی فعال کردار دکھائی نہیں دیا یہی وجہ تھی کہ نگران وزراءبھی انتخابات میں حصہ لیا کرتے تھے یہ توجب افتخار محمد چوہدری کے دور میں جوڈیشل ایکٹوازم کارجحان سامنے آیا تو الیکشن کمیشن میں بھی جان پڑ گئی اور پھررفتہ رفتہ اس کاکردار فعال ہوتا چلاگیاتاہم اس سب کے باوجود ہمارے الیکشن کمیشن نے آج تک سیاسی جماعتوں کے جمعہ بازار کے سلسلہ میں کسی قسم کی قانون سازی کی کوشش نہیں کی نہ ہی انتخابی وعدوں میں مبالغہ آرائی اور پھر اپنے ہی منشور کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے حوالہ سے باز پرس کاکوئی سسٹم وضع کرسکاہے خیریہ تو بہت بڑی بات ہے ہمارا الیکشن کمیشن تو آج تک انتخابی اخراجات کی قانونی حد کی پابندی کو بھی مکمل طورپر لاگو کرنے میں ناکام رہاہے سب کوپتہ ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں بے تحاشہ پیسہ استعمال کرتی ہیں اسی طرح امیدوار بھی انتخابی اخراجات سے کئی کئی گنا زیادہ خرچ کردیتے ہیں مگر آج تک کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوسکی ہے جس کے باعث خود الیکشن کمیشن کی ساکھ متاثر ہوتی جارہی ہے ہمارے ہاں عوام سے ووٹ لینے کے لئے سیاسی جماعتیں شاندار منشور کا اعلان کرتی ہیں مگر اس پر کبھی دس فیصد عمل بھی نہیں کیا گیاایک سیاسی پارٹی نے پچھلے انتخابات سے قبل 50 لاکھ مکانات ایک کروڑ نوکریاں اور تین سو نئے ڈیم بنانے کا وعدہ کیا۔عوام نے اس پارٹی کے چیئرمین کی ساکھ دیکھتے ہوئے اس بات پر تقریباً یقین کر لیا تھا کہ اس پارٹی کی اس معاملے میں ور کنگ مکمل ہوگی، کیو نکہ یہ کام کچھ مشکل بھی نہیں تھا، کیونکہ پارٹی چیئرمین نے تعمیرات کے شعبے کو ترقی دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔لاکھوں ایکڑ سرکاری زمینوں پر قبضہ گروپوں نے قبضے کئے ہوئے ہیں، لوگوں کا خیال تھا کہ شاید قبضہ گروپوں سے سرکاری زمینیں واگزار کروا کے آدھی زمینیں بیچ کر ا±س رقم سے باقی آدھی زمینوں پر مکانات تعمیر کئے جائیں گئے۔اس طرح پچاس لاکھ مکانا ت بھی بن جائیں گے اور مزید ایک کروڑ لوگوں کو صرف کنسٹرکشن کے شعبے میں ہی روزگار مل جائے گا، مگر ایسا نہیں ہوا، دوسرے وعدے بھی پورے نہیں ہوئے،ایک اور مقبول سیا سی پارٹی نے ہر الیکشن سے پہلے پا کستان کو ” ایشیا کا ٹائیگر“ بنانے کا اعلان کیا، لوگوں کو ایسے سبز باغ دکھائے گئے کہ ایک بڑے طبقے کو یقین ہو گیا کہ پاکستان ایک صنعتی ملک بننے لگا ہے چنانچہ یہ پا رٹی بھی تین دفعہ حکومت بنا نے میں کامیاب ہوئی،دو تہا ئی اکثریت سے کا میاب ہوئی مگر ہر دفعہ نجا نے کیا سوچ کر اس پارٹی نے بھی اپنے منشور پر کبھی بھی عمل نہیں کیا۔اس پارٹی نے بھی شخصیات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اپنے ووٹروں کو کبھی منشور یاد ہی نہیں آنے دیا‘ایک پارٹی ہر مرتبہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتی ہے مگر اس سلسلہ میں نہ تو قابل عمل پروگرام پیش کیا جاتا ہے نہ عمل کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ جس صوبے میں لگاتار یہ پارٹی جیت کر حکو مت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، وہاں بھی اس نعرے کی عملی تصویر کا عشر عشیر نظر نہیں آتا۔ لو گوں کو کچھ معاملات میں اس طرح ا± لجھا دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ اپنے صوبے میں جہاں کراچی جیسا شہر بھی موجود ہے کہ جو تقریباً سارے پا کستان کو ”پا لتا“ ہے، لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان کیوں نہیں دیتے۔