انسانی معاشروں کی ترقی اور بالخصوص ’صنعتی انقلاب‘ کے اُبھرنے سے انسان اور مشینوں کے درمیان پیدا ہونے والا تعلق مضبوط ہونے لگا۔ انسان اور مشینیں ایک دوسرے سے گھل مل گئے لیکن مشینوں کا موجد اِنسان‘ مشینوں کے لئے ناقابل تسخیر رہا کیونکہ وقت کے ساتھ مشینوں کو بہتر بنایا گیا اور یوں نہ صرف مشینوں نے ترقی کی بلکہ ’اِنسانی صلاحیتوں‘ میں بھی وقت کے ساتھ نکھار آتا گیا۔ انسان یہیں نہیں رکا اور فطرت اور ثقافتی حدود کو پار کرنے کے لئے ایک قدم مزید آگے بڑھا۔ بیسویں صدی میں مشینوں کے ساتھ ٹیکنالوجی کو جوڑ دیا گیا جس سے زیادہ آسانیاں پیدا ہوئیں لیکن اِس کے ساتھ ہی انسانی تہذیب ایک ایسے چوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں سے ترقی و بربادی کے ایک جیسے کئی راستے نکلتے ہیں۔ مشینوں کی حکمرانی یعنی بڑھتے ہوئے خودکار (آٹومیشن) نظام اور مشینوں کو مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلیجنس) سے لیس کرنا دنیا کا ’پانچواں صنعتی انقلاب‘ کہلاتا ہے۔ موجودہ اور قبل ازیں آنے والے انقلابات میں فرق یہ ہے کہ ماضی میں مشینیں مصنوعی انداز سے سوچنے سمجھنے کی خودکار صلاحیت سے لیس نہیں تھیں لیکن اب وہ انسانی مداخلت کے بغیر بھی فیصلے کر سکتی ہیں۔مصنوعی ذہانت کا یہ پانچواں انقلابی دور بھی انسانوں ہی کا ایجاد کردہ ہے۔ مشینوں میں خود سے یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اپنی ذہانت کو تخلیق کر سکیں لیکن جن اصولوں اور خطوط (الگورتھم) پر مشینوں کو مصنوعی ذہانت سے لیس کیا جا رہا ہے اُس میں بہت جلد مشینیں خود مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی یا دیگر مشینوں کی مصنوعی ذہانت کی استعداد میں اضافہ کر سکیں گی اور یہی وہ مرحلہ ہو گا جب انسانوں کی ذہانت کے مقابلے مصنوعی ذہانت آ کھڑی ہو گی۔ ’نک بوسٹروم‘ نے اپنی کتاب جو کہ ’سپر انٹیلی جنس‘ سے طریق‘ اِس سے جڑے خطرات اور حکمت عملیوں سے متعلق ہے میں دلیل دی ہے کہ مصنوعی ذہانت کی علمی صلاحیتیں اسے اُن امور کی انجام دہی کی پوری اجازت دیتی ہیں جن کے بارے میں پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ یہ صرف انسانوں کا کمال ہے اور اِس شعبے میں انسانوں کا مقابلہ کسی بھی دوسری مخلوق یا جاندار سے نہیں کیا جا سکتا۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے مشینیں بیک وقت کئی زبانوں اور کئی ہدایات کو سمجھنے اور اُن کے مطابق کام کرنے کی صلاحیت سے لیس ہو چکی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا چوتھا انقلاب یہ تھا کہ مشینیں سیکھنے کے عمل اور ردعمل کے اظہار میں فیصلہ کرنے کی ’انسانی صلاحیت‘ کا استعمال کرتی تھیں۔ آٹومیشن اور ٹیکنالوجی کی
ترقی سے پہلے‘ اِنسانی ادراک بہت سی چیزوں کے لئے اہم تھا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا چوتھا دور ختم ہو رہا ہے اور پانچویں دور میں مصنوعی ذہانت نئے اُفق تلاش کر رہی ہے۔مصنوعی ذہانت سے لیس مشینوں کی ایجاد سے شروع ہوئے چوتھے انقلاب کے برعکس‘ پانچواں مرحلہ ’خاموش انقلاب‘ ہے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح گزشتہ دہائی میں الگورتھم کے ذریعہ انسانوں نے مشینوں کی علمی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر‘ گوگل نامی امریکی ادارے کی ذیلی کمپنی ’ڈیپ مائنڈ‘ نے الفا گو کے نام سے مصنوعی ذہانت کا ایک پروگرام بنایا جس نے شطرنج جیسے پیچیدہ کھیل میں انسان کو شکست دی جبکہ اِس سے قبل مصنوعی ذہانت کے درپردہ کام کرنے والا طریقہ (الگورتھم) ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ مشینوں کے خود کار کام کرنے کو ’آٹومیشن‘ کہا جاتا ہے اور جب اِس خودکار طریقے کے ساتھ مصنوعی ذہانت مل جاتی ہے تو اِس سے ایک ایسی ’ہنر مند‘ مشین مل جاتی ہے جو دن رات بنا تھکاوٹ اور بنا کسی دیگر مشغولیت کام کاج کر سکتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کو زیادہ سے زیادہ پیچیدہ کاموں کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہے جیسا کہ امراض کی تشخیص اور جراحت (سرجری) میں مصنوعی ذہانت انسانوں کے مقابلے کم وقت میں کسی نتیجے تک پہنچ جاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے یہ بات بھی ممکن ہو گئی ہے کہ کسی مریض کی شخصی و ذاتی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس کے لئے ایک منفرد طریقہ¿ علاج اختیار کیا جائے۔ مشینوں کی یہ صلاحیت کہ وہ بیک وقت کئی ایک پہلوو¿ں کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کاج کر سکتی ہیں ایک ایسی صلاحیت ہے جس نے مصنوعی ذہانت‘ کو نئے امکانات سے روشناس کرایا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ انسانی معاشروں میں ’زبان (لینگویج)‘ کا ارتقا جاری رہتا ہے اور زبان کو انسانوں کی ذہنیت کا عکس سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ ایک ہزار سال میں اگر لسانیات کے شعبے میں انسانوں کی ترقی و
افادیت کو دیکھا جائے تو ہزاروں سال کی محنت کا خلاصہ ’اوپن اے آئی‘ کی جانب سے پیش کردہ ’جی پی ٹی تھری‘ اور ’جی پی ٹی فور‘ کی صورت ہمارے سامنے ہے جس میں مشین نے عروج و کمال حاصل کیا ہے اور یہ لسانیات کے شعبے میں پیشگوئی و ایجاد کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ مصنوعی ذہانت جس طریقے (الگورتھم) پر کام کرتی ہے وہ انسان کا تیار کردہ ہوتا ہے لیکن انسانوں نے مشینوں کو ازخود ایسے متن (الگورتھم) تیار کرنے کے قابل بنا دیا ہے کہ وہ سوالات کے جوابات دے سکتا ہے۔ تقاریر لکھ سکتا ہے۔ ایک زبان کی تحریر کو دوسری زبان کی تحریر میں ترجمہ کرنے کے علاوہ شاعری بھی کر سکتا ہے۔ مشینوں کو حاصل ہونے والی تخلیقی صلاحیتیں درحقیقت مشین کی نہیں بلکہ انسانوں کی کامیابیاں شمار ہونی چاہیئں لیکن اندیشہ اور خدشہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو انسانوں کی فلاح و بہبود‘ تعلیم و تربیت اور علاج جیسے شعبوں میں استعمال کرنے کے ساتھ انسانوں کی تباہی کے لئے بھی بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے لیس ہتھیار انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کی اموات جیسی تخریبی صلاحیت سے لیس ہو رہی ہیں! مصنوعی ذہانت کے پانچویں انقلاب میں مشینیں انسانی معاشرے کے لئے تخریبی اور تخلیقی نتائج پیدا کر رہی ہیں۔ دوسری طرف علمی بنیاد پر پھیلنے والا ’سرمایہ دارانہ نظام‘ پوری طرح پھیل چکا ہے جس میں صرف ہنر مند افراد ہی کو یہ مالی سکت حاصل ہوتی ہے کہ وہ زندگی کی بنیادی و ضروری سہولیات سے لیکر بلند معیار زندگی سے لطف انداز ہوں۔ کم ہنر مند مزدوروں کے لئے نئے عالمی نظام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور اِس سے ایک طرح کا ’معاشی عدم تحفظ‘ پیدا ہوا ہے جو بڑھ رہا ہے اور اگر اِس پر قابو نہ پایا گیا تو انسانی معاشرہ مشینوں سے مماثلت رکھنے والے انسانوں میں تبدیل ہو جائے گا جس سے انسانی معاشرے کے سماجی تانے بانے بکھر سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت معیشت‘ زراعت‘ سیاست‘ عدل و انصاف‘ تعلیم و صحت کو بہتر بنا کر انقلاب برپا کر سکتی ہے لیکن مشینوں کی حکومت کے منفی اثرات پر بھی یکساں نظر رکھنی چاہئے کیونکہ اِس کے ہماری آنے والی نسلوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ وقت ہے کہ سوچا جائے‘ سمجھا جائے اور دیکھا جائے کہ مصنوعی ذہانت کے انقلابی دور میں ’انسان اور انسانیت‘ کہاں کھڑے ہیں اور کس طرح مصنوعی ذہانت نئے مواقع کی صورت انسانی معاشرے کے لئے پریشانیاں (چیلنجز) پیدا کر رہی ہے۔