یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی نے دنیا بھر میں ’خوف اور مسلسل اضطراب‘ کی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کا اثر صرف بدلتے ہوئے موسمی حالات‘ زیادہ گرمی یا کسی اور رجحان پر مبنی نہیں۔ رواں ہفتے سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی رپورٹ کے مطابق ”موسمیاتی تبدیلی کا طبقات (کمیونٹیز) خاص طور پر کم آمدنی رکھنے والے غریب طبقات اور کمزور لوگوں بشمول خواتین پر کہیں زیادہ دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور پاکستان دنیا کے اُن 10 ممالک میں سے ایک ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی موسمیاتی اثرات کے نقصان دہ اثرات دیکھ چکا ہے اور سال دوہزاربائیس کے سیلاب نے کم از کم تین کروڑ تیس لاکھ افراد کو متاثر کیا جب کہ سیلاب سے سترہ سو ہلاکتیں ہوئیں اور اکتوبر دوہزاربائیس میں آئے سیلاب سے متاثرہ علاقے میں زرعی معیشت و معاشرت تاحال بحال نہیں ہو پائی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے 173 منفی واقعات رونما ہوئے۔ جس کی وجہ سے ملک کو مجموعی طور پر ”چار ارب ڈالر“ کا مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے کیونکہ یہ ہر آفت کے بعد تعمیر نو اور بحالی کی کوشش کی جاتی ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کو اعتدال میں لانے کے لئے جس قدر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے‘ وہ نہیں ہو رہی۔ موسمیاتی اثرات کا چکر (سائیکل) تبدیل ہونے کے ساتھ زراعت کو سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان تن تنہا اِن موسمیاتی تبدیلیوں کو درست نہیں کر سکتا اور نہ ہی اِس کے متاثرین کی ضروریات صرف اپنے وسائل سے پوری کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اِس بے بسی کی صورتحال میں کیا کچھ کیا جانا چاہئے اور کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ سب سے پہلے تو آب و ہوا سے متاثرہ لوگوں کو اِن موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہ کرنا چاہئے کہ وہ کون کون
سے اقدامات اور وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کرہ¿ ارض کے موسم تبدیل ہو رہے ہیں اور اگر اِس تبدیلی کو بڑھنے سے روکنا ہے تو اِس کے لئے کس طرح کی محنت اور عمل کی ضرورت ہے۔ پیش گوئیوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلی زیادہ بڑے پیمانے پر ظہورپذیر ہوں گی اور اِن کے منفی اثرات صرف غریب (کمزور) طبقات ہی کو متاثر نہیں کریں گے بلکہ پاکستان میں موسمیاتی منفی واقعات مزید لوگوں کو متاثر کرنے کا امکان رکھتے ہیں۔ جن سے نمٹنے کے لئے حکومتی پالیسیوں کے ساتھ معاشرے میں سرگرم گروہوں کو بھی فعال ہونا چاہئے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ لوگوں کو تعلیم دینا ضروری ہے تاکہ وہ اس بات سے زیادہ آگاہ ہوں کہ مزید کیا آفات آسکتی ہیں اور یہ کیوں آتی ہیں۔پاکستان کو بین الاقوامی برادری کی توجہ بھی حاصل کرنے کے لئے کوششیں زیادہ تیز کرتے ہوئے سخت دباو¿ ڈالنا چاہئے تاکہ متاثرین اور مزید ممکنہ متاثرین کو بچایا جا سکے اور حال و مستقبل کے موسمیاتی اثرات سے ممکنہ بڑے نقصانات سے بچنے اور نمٹنے کی تدابیر وضع کی جا سکیں۔ اپنی ذات میں یہ چیلنج کافی بڑا ہے۔ بہرصورت اِس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ جب ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بچانے کی بات آتی ہے تو حکومت اور عوام کی سوچ‘ عمل اور حکمت عملی ایک ہونی چاہئے۔ سردست درپیش چیلنجوں میں ’سمندری طوفان‘ بھی شامل ہیں جو کراچی کے ساحل سے ٹکرا سکتے ہیں۔ سال دوہزاربیس سے آب و ہوا کی تبدیلی زراعت‘ فصلوں کے معمولات (پیٹرنز) کو متاثر کر رہی ہے جس کی وجہ سے غذائی تحفظ و سلامتی کی صورتحال متاثر ہے۔ ضروری ہے کہ حکومتی سطح پراِس مسئلے سے نمٹنے کے لئے پالیسیاں وضع کی جائیں اور لاکھوں لوگوں کو بچایا جائے جو موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہیں اور مزید اِیسے خطرات سے دوچار ہیں۔ ماحول دشمن گیسوں کا اخراج کم کر کے موسمیاتی تبدیلیاں درست کی جاسکتی ہیں جو دیگر ممالک کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ ایک متاثرہ ملک کی حیثیت سے‘ پاکستان کو یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ مقامی سطح پر اقدامات کے ساتھ عالمی سطح پر بھی سفارت کاری کے ذریعے درپیش موسمیاتی چیلنجز اُجاگر کئے جائیں کیونکہ کوئی بھی ملک ’عالمی تعاون و اشتراک عمل کے بغیر‘ تن تنہا اِن مسائل سے نمٹ نہیں سکتا۔