محکمہ صحت نے ایک بار پھر سرکاری ہسپتالوں کے باہربعض ڈاکٹروں اور طبی عملے کے پرائیویٹ کلینکوں، ہسپتالوں،الٹراساﺅنڈ اور ایکسرے سینٹرز، لیبارٹریوں اور میڈیکل سٹور کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں بند کرنے کا حکم دیا ہے‘محکمہ صحت کی طرف سے یہ حکم نامہ پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس سے متعلق کیس کے فیصلے کی بنیاد پر جاری کیا ہے جس میں عدالت عالیہ نے ہسپتالوں کے باہر سرکاری ملازمین کے پرائیویٹ ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کے قیام کو خلاف قانون قرار دیاتھا محکمہ صحت کے حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں سے پانچ سو میٹر کے فاصلے کے اندر کوئی کلینک یاہسپتال نہیں کھول سکتا۔ سرکاری اعلامیہ میں تمام اضلاع کے ڈی ایچ اوز، ریجنل ہیلتھ ڈائریکٹرز، میڈیکل سپرنٹنڈنٹس اور انڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹوں کو اس فیصلے پر عمل درآمد کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔اس سے قبل بھی محکمہ صحت کی طرف سے ایسے احکامات جاری کئے گئے تھے مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوسکایہ بات عدالتی ریکارڈ میں بھی لائی گئی ہے کہ پشاور، مردان، سوات، ڈیرہ، ایبٹ آباد کے ٹیچنگ ہسپتالوں، ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں، آر ایس سیز اور بی ایچ یوز کے باہر کچھ ڈاکٹروں اور طبی عملے کے پرائیویٹ ہسپتال ‘ کلینک‘ لیبارٹریاں اور میڈیکل سٹورز قائم ہیں بعض ڈاکٹر حضرات اپنے کلینک آنے والے مریضوں کو ہی سرکاری ہسپتالوں میں داخل کرواتے ہیں سرکاری ہسپتال میں بھی مریض کو سی ٹی سکین، ایم آر آئی، الٹراساونڈ، ایکسرے یا لیبارٹری ٹیسٹ کےلئے ان لیبارٹریوں کو ریفر کیا جاتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کے اندر ہر قسم کے ٹیسٹوں کی سہولت ہونے کے باوجود مریضوں کو پرائیویٹ اداروں میں بھاری فیس دے کر ٹیسٹ کرانے پر مجبور کیا جاتا ہے‘گذشتہ حکومت نے سینئر ڈاکٹروں کے ہسپتال سے باہر کلینک کھولنے پرپابندی لگائی تھی اور انہیں سرکاری ہسپتال میں ہی پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت دے دی تھی مگر کچھ ڈاکٹروں نے ہسپتال کے اندر پرائیویٹ پریکٹس سے انکار کردیا حالانکہ ہسپتال کے اندر دوسری شفٹ میں پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر کی فیس بھی پرائیویٹ کلینک کے مساوی رکھی گئی ہے‘ ہسپتال کے اندر پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر جو ٹیسٹ کرواتے ہیں ہسپتال کے اندر ان کی فیس بھی عام پرائیویٹ لیبارٹریوں کے مساوی رکھی گئی ہے‘ وہاں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 60فیصد ڈاکٹر کودیا جاتا ہے اور 40فیصد ہسپتال کے فنڈ میں جمع ہوتا ہے۔عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے محکمہ صحت کاسرکاری ہسپتالوں کے باہربعض ڈاکٹروں، نرسوں اور میڈیکل ٹیکنیشنوں کے پرائیویٹ کاروبار پر پابندی عائد کرنے کا حکم قابل ستائش ہے‘اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ نجی سطح پر کاروبار کرنے والے چند افراد جن سے شکایت ہوتی ہے کی وجہ سے وہ ڈاکٹر بھی تنقید کی زد میں آجاتے ہیں جو حقیقی معنوں میں دکھی انسانیت کی خدمت انجام دے رہے ہیں ‘یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پرائیویٹ ہسپتال، کلینک اور لیبارٹری والوں کو جرمانہ کرکے اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی یا انہیں مستقل طور پر بند کرنا ممکن ہے؟عدالتی اور محکمانہ فیصلے کو نظر اندازکرنے والوں کے لئے یہ سزا زیادہ مناسب رہے گی کہ قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوںکو دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں میں جاکراپنے کلینک اور لیبارٹریاں قائم کرنے کا پابند بنایاجائے تاکہ چترال، دیر، کوہستان، بٹگرام، تورغر، خیبر، مہمند، باجوڑ، وزیرستان، اورکزئی، کرم، ٹانک اور لکی مروت کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کے غریب لوگوں کواپنے گھر کے قریب صحت کی بنیادی سہولتیں میسر آسکیں۔ مذکورہ علاقوں میں ہسپتال تو کجا، سڑک کی سہولت بھی میسر نہیں، مریضوں کو چارپائیوں پرڈال کر کئی کلو میٹر پیدل سفر کیا جاتا ہے ‘مستحق اوردکھی انسانیت کی خدمت کی یہ سزا خود ڈاکٹروں اور طبی عملے کے لئے دنیا اور آخرت میں سرخروئی کا سبب بن سکتی ہے‘ سزا برائے اصلاح کی یہ تجویز نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ وسیع تر قومی مفاد میں بھی ہے۔