انسانی خواہشات کا شمار ممکن نہیں البتہ چند مشترکات میں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا اور صلہ رحمی کے ساتھ ایک ایسے ’سماجی تعلق (ماحول)‘ کی تخلیق ہے جس میں رشتے محبت اور محبت رشتوں پر حاوی دکھائی دے۔ اِنہی کے درمیان توازن کا نام اعتدال ہے لیکن دوسروں کی نظر میں بہتر ہونے کی کوشش میں کوئی شخص اگر اپنے آپ سے محبت نہیں کرتا تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اُس کے لئے دوسروں کو بھی محبت دینا مشکل ہو جاتا ہے‘ یہاں تک کہ وہ خلوص نیت سے کوشش بھی کر رہا ہوتا ہے۔ ’دلی اطمینان‘ پر مبنی زندگی کے لئے اطمینان‘ شکر گزاری (احسان مندی) اور محبت (ملنساری) جیسے اجزا¿ کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر یہ اجزا میسر آ جائیں تو اِس سے کوئی بھی شخص دلی طور پر ’خوشی محسوس کرتا ہے لیکن صرف خوشی اور اطمینان محسوس کرنا بھی کافی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اِنہیں طول اور وسعت دینے میں کامیاب نہ ہو اور یہی وہ مرحلہ¿ فکر ہے کہ انسان اپنے آپ سے مسلسل پوچھتا رہتا ہے کہ وہ مزید خوش کیسے ہو سکتا ہے اور اُس کی خوشی کے لمحات دائمی کیسے ہو سکتے ہیں۔پشاور صدر کے معروف سماجی کارکن زبیر الٰہی سے ملاقات کا شرف ملا جو اپنی ذات میں مگن ایک ایسی شخصیت ہیں کہ جنہیں کسی سے غرض نہیں اور وہ اپنے ہاں غرض لیکر آنے والوں کی میزبانی و تواضع سے لیکر اُن کی رازداری سے مدد کو معمول بنائے ہوئے ہیں۔ اولیائے کرام میں بلند مقام رکھنے والے پیرطریقت سیّّد علی ترمذی المعروف پیر بابا رحمة اللہ علیہ کی اولاد پشاور میں بھی ’پیر باباؒ‘ کی محبت اور نسبت کے چراغ جلائے ہوئے ہے اور اُن کا لنگر آج بھی وسیع ہے۔ زبیر الٰہی اگرچہ ’مسلم لیگ (نواز)‘ سے سیاسی وابستگی رکھتے ہیں اور سیاسی حلقے میں بھی اُن کی عزت و تکریم کا جھنڈا بلند ہے لیکن وہ خود ’پیر باباؒ‘ کی اولاد ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اِسی فخر کو فقر و عاجزی کی صورت اختیار کئے وہ ایک ایسے دُرویش ہیں جن کے ہاں شفقت و محبت اور امن و سلامتی کے علاوہ کسی دوسری بات کا درس نہیں ملتا۔ کوئی بھی شخص 38 سالہ زبیر الٰہی سے پہلی ہی ملاقات میں اُن کی سیدھی سادی مرنجاں مرنج طبعیت کا دلدادہ ہو جاتا ہے۔ بہت ہی کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو احسان کرتے ہوئے احسان نہ کریں۔ زبیر الٰہی ’ہوپ (اُمید)‘ کے نام سے ایک غیرسرکاری تنظیم (این جی او) کی روح رواں بھی ہیں جس کے ذریعے وہ نادار افراد کی امداد‘ ہنرمندوںاور بیماروں کا مستقل بنیادوں پر علاج کر رہے ہیں اور یہ فلاحی کام بھی اتنی رازداری سے کئے جاتے ہیں کہ اہل پشاور کی بہت ہی کم تعداد کو اُن کی سماجی و فلاحی خدمات کا علم ہوگا کہ وہ کس طرح اپنے اہل علاقہ اور گلی محلے کے لوگوں کو درپیش مسائل کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں اور ہر کار خیر میں دامے درہمے سخنے اُن کی شمولیت رہتی ہے۔ گردوں کے مریضوں کے لئے ڈبگری گارڈن میں ڈائیلاسیز مرکز اور بزرگ افراد کے لئے ’اولڈ ایج ہوم‘ بنانے کے زیرتعمیر منصوبوں کے بارے میں وہ بہت کم بات کرتے ہیں لیکن یہ دونوں منصوبے پشاور کے لئے انتہائی اہم و ضروری ہیں۔ جو لوگ خوشی کی تلاش میں ہیں اُنہیں زبیر الٰہی سے ضرور ملاقات کرنی چاہئے جو عام فہم زبان میں تصوف کے اسباق سے لیکر دنیاوی کام کاج میں کامیابی کے گر سکھاتے ہیں۔ وہ ایک معلم ہیں‘ جن سے سیکھنے اور کسی بھی قسم کی طلب رکھنے والوں کو وہ سب کچھ ملتا ہے جس کی تمنا لے کر وہ اُن کے آستانے (در دولت) پر جاتے ہیں۔ وہاں انکار نہیں‘ خوشی ہی خوشی ہے۔ در و دیوار سے ٹپکتی ہوئی خوشی۔ جہاں روح کو خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ دلی اطمینان لوگوں کی خدمت میں ہے۔ انسان اگر اپنے مقصد تخلیق سے آشنا ہو بھی جائے لیکن وہ اُس وقت تک مطمئن نہیں ہو سکتا جب تک اپنی تخلیق اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھ (کماحقہ جان) نہ لے اور جب یہ عظیم مقصد اُس کی سمجھ میں آ جاتا ہے تو پھر سیاست ہو یا کوئی بھی دوسرا شعبہ اُس کا کردار‘ ہمیشہ ”خدمت ِخلق (مخلوق خدا کی خدمت)“ رہتا ہے اور نفسانفسی کے دور میں ایسے افراد سے ملنے کا موقع یقینا غنیمت ہے کہ جنہیں دیکھ کر اِس دلی اطمینان میں اضافہ ہو کہ دنیا ایسے ظاہری و باطنی نفوس عالیہ سے خالی نہیں جو خوبصورت بھی ہیں اُور نیک سیرت بھی‘ جو عطار ہیں کہ اُن کے پاس بیٹھنے سے بکھرا ہوا ظاہر و باطن یکجا اُور نکھرتا محسوس ہوتا ہے۔