روسی تیل

روس سے خام تیل کا پہلا بحری جہاز کراچی کے ساحل پر لنگر انداز ہونے سے پاک روس تجارتی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے تاہم ممالک کے درمیان تجارت دوطرفہ وقتی تعاون کا نام نہیں ہوتی بلکہ یہ کثیرالجہتی ہوتی ہے اور پاکستان کے موجودہ معاشی حالات اور مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ناگزیر ہو چکا ہے کہ خطے کے ممالک کے ساتھ اور بالخصوص ہمسایہ ممالک کے راستے اُن تجارتی راہداریوں کو پھر سے مصروف کر دیا جائے جو ایک وقت میں پشاور کے راستے بھارت تک پھیلی ہوئی تھیں۔ وقت ہے کہ روس کے ساتھ تجارتی روابط کی بحالی کے موجود امکانات اور اِن کے فروغ کی کوششوں کو ’تخلیقی سوچ‘ سے آگے بڑھایا جائے۔ روس سے درآمد ہونے والا تیل صرف کم قیمت ہی نہیں بلکہ اِس کی قیمت ادا کرنے کے لئے غیرروایتی لین دین کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے اور یہی اِس تجارت کا سب سے بڑا (نمایاں) فائدہ ہے کہ تیل کی قیمت کی ادائیگی چین کی کرنسی (یوآن) میں کی جائے گی۔ یہ ایک ایسا ریلیف جس پر پاکستان 
خاص طور پر شکر گزار ہے کیونکہ ایک تو پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کم ہیں اور دوسرا اگر درآمدات و برآمدات ڈالر کے علاوہ ہونے لگیں تو یہ تجربہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی جلد تکمیل و کامیابی پر بھی اثرانداز ہوگا۔ پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں اختلاف برائے اختلاف اور مخالفت برائے مخالفت سے کام لیتے ہوئے روس سے درآمد ہونے والی پیٹرولیم مصنوعات کے معیار پر تنقید کی جا رہی ہے اور ایسے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں جس سے اِس تجارت کی اہمیت عوام کی نظروں میں کم ہو جائے جیسا کہ روسی پیٹرولیم کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ مقامی ریفائنریز اِس تیل کی تطہیر کرنے کی صلاحیت یا اہلیت نہیں رکھتیں اور یہ کہ روس سے تجارت امریکہ کی ناراضگی کا باعث بنے گا جس سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض ملنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر ماضی میں روسی پیٹرولیم درآمد کرنے کی حمایت کی جاتی تھی تب وہ قابل استعمال اور مفید تھا لیکن آج جب وہی روسی پیٹرولیم درآمد کیا جاتا ہے تو یہ ناقابل استعمال اور مفید نہیں رہا۔ شاید اس طرح کی جانبدارانہ سوچ سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ پاکستان کو جغرافیائی سیاست اور جغرافیائی اقتصادی امور کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے یقینا فی الوقت روسی خام تیل نہ تو ملک کی توانائی کی تمام ضروریات پوری کرے گا اور نہ ہی اِس سے پاکستانی کرنسی پر برقرار دباو¿ میں کمی آئے گی لیکن اگر روس کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں سے بھی تجارتی تعلقات قائم کئے جائیں تو اقتصادی بہتری آ سکتی ہے 
جیسا کہ اگر آذربائیجان کے ساتھ کم قیمت ’مائع گیس (ایل این جی)‘ کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ حکومت کو ایسے جرا¿ت مندانہ اقدامات کا انتخاب کرنا چاہئے جن سے پاکستان کا زیادہ فائدہ ہو اور یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ تیل ہی واحد اور ضروری درآمد نہیں بلکہ ’پام آئل‘ اور ادویات (فارماسیوٹیکلز) کی درآمدات بھی یکساں اہم ہیں۔ اگر خطے کے ممالک بالخصوص آپسی تجارت میں ڈالر پر انحصار کم کرنے پر متفق ہو جائیں تو ایک اجتماعی فائدے کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ وسط ایشیائی جمہوریہ کے ساتھ تجارت کے فوائد ہی فوائد ہیں لیکن اِن کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے زیادہ وسیع تجارتی تعلقات قائم کرنا ہوں گے روس اور آذربائیجان اور سابق سوویت یونین کی ریاستیں توانائی کے وسائل سے مالا مال ہیں گویا پاکستان کے مسائل کا حل اِس کے آس پاس ہی موجود ہے جسے اچھی ہمسائیگی سے اپنے نام کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کی ترقی کا انحصار توانائی کے ذرائع پر ہے اور وسطی ایشیا اس حوالے سے پاکستان کی مدد کر سکتا ہے ۔