دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب اور سب سے زیادہ توانائی کا استعمال کرنےوالے ملک چین کے درمیان تعلقات کی بنیاد اب تک تو تیل ہی رہی ہے لیکن اب ان دونوں ممالک کے تعلقات کی تصویر بدل رہی ہے‘سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں گزشتہ دنوں ہونے والی 10ویں دو روزہ عرب چین بزنس کانفرنس میں دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کی ہے‘ عرب نیوز کے مطابق اس کانفرنس میں دونوں ممالک کے درمیان دس ارب ڈالر کے 30 معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں‘اس سے قبل سعودی عرب نے سرینگر میں منعقدہ جی-20 اجلاس میں اپنا نمائندہ نہیں بھیجا تھا۔ پاکستان نے سرینگر میں جی 20 کے اجلاس کے انعقاد پر اعتراض اور احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔پاکستان کے اعتراض کے بعد چین، سعودی عرب، ترکی اور مصر نے جی 20 اجلاس میں اپنے نمائندے نہیں بھیجے تھے۔ خیال رہے کہ انڈیا رواں سال جی 20کی صدارت کر رہا ہے اور اس کا سربراہی اجلاس نومبر کے مہینے میں نئی دہلی میں ہونا ہے ‘
عرب، چین سربراہی اجلاس کے دوران سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان سے دونوں ممالک کے تعلقات پر مغربی تنقید کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں اسے نظر انداز کرتا ہوں کیونکہ ایک کاروباری شخصیت کے طور پر آپ وہیں جائیں گے جہاں آپ کو مواقع نظر آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے ایسا کوئی آپشن نہیں ہونا چاہئے کہ ہمیں دونوں چین یا امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ تھا کہ سعودی عرب کے سامنے ایسی صورت حال نہیں آنی چاہئے کہ انھیں چین یا مغرب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے‘ چند روز قبل امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے جس کے بعد گذشتہ دنوں ریاض میں چینی سرمایہ کاروں اور تاجروں کا ہجوم دیکھا گیا‘ یہ پیش رفت سعودی عرب کی بدلتی ترجیحات کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔حال ہی میں جب مشرق وسطی کے دو ممالک ایران اور سعودی عرب نے دوستی کےلئے ہاتھ بڑھایا تو ہر طرف چین کی سفارتکاری کا چرچا ہونے لگا‘ چین نے سات سال بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے‘ یہ معاہدہ چین کے اعلی سفارتکار وانگ یی کی ثالثی میں ہوا تھا۔اس کے بعد دسمبر 2022ءمیں چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا‘ اس دوران انھوں نے مطالبہ کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تیل کی تجارت چینی کرنسی یوآن میں کی جائے جبکہ دنیا میں تیل کی سب سے زیادہ درآمدات ڈالر میں کی جاتی ہیں‘ یہ ایک ایسا مطالبہ تھا جس کا براہ راست اثر ڈالر کی قدر پر پڑتا۔ولی عہد محمد بن سلمان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سعودی عرب تیل پر مبنی اپنی معیشت کو مزید متنوع بنانے کی کوششیں کر رہا ہے‘ خارجہ امور کے ماہر ین
عرب چین بزنس کانفرنس میں طے پانےوالے نئے معاہدوں کو سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی سمجھتے ہیں‘انکا یہ بھی کہنا ہے کہ اب سعودی عرب کثیر قطبی دنیا کی طرف بڑھ رہا ہے‘ سعودی عرب چین کےساتھ ساتھ روس سے بھی دوستی کر رہا ہے‘ جس طرح امریکہ نے روس پر پابندیاں لگائی ہیں‘ روس کے کروڑوں ڈالر کے سرمایہ کاری کے منصوبے مغربی ممالک میں بند کر دیے گئے ہیں‘ اس کی وجہ سے مغربی ایشیاءکے ممالک میں بھی خوف بڑھ گیا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ ان کا پیسہ اب مغربی ممالک میں محفوظ نہیں رہا‘ وہ امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک کے بجائے اُبھرتی ہوئی معیشتوں میں پیسہ لگانا چاہتے ہیں ‘امریکہ سمیت مغربی ممالک نے ایک جانب تو یوکرین کی مالی امداد کی ہے جبکہ دوسری جانب روس پر پابندیاں لگا کر اس یوکرین کے خلاف جنگ میں کمزور کرنے کی کوشش کی ہے‘ مغربی ممالک پابندیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے مغربی ایشیا ءکے ممالک کا ڈرنا حق بجانب ہے۔جبکہ چین کی ایک خاص حکمت عملی ہے کہ وہ مغربی ممالک کی طرح کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔