سمندری طوفان بیپرجوئے جس کا لفظی مطلب ’سمندری طوفانی آفت‘ ہے گزشتہ کچھ دنوں سے ’شہ سرخیوں‘ میں ہے اور اِس کی زد میں سندھ کے کئی بڑے شہر بشمول کراچی میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے امدادی ادارے سرگرم ہیں۔ سمندری طوفان ’بیپرجے‘ کی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور پاکستان و متصل بھارت کے ساحلی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ایک موقع پر محکمہ موسمیات نے اطلاع دی تھی کہ اِس سمندری طوفان کا رخ شمال مشرق (بھارت) کی طرف منتقل ہو چکا ہے لیکن اِس کے باوجود بھی پاکستان کے ساحلی علاقے اس کے اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ بپرجوئے سندھ میں کیٹی بندر اور بھارت میں گجرات کے درمیان ساحلی علاقوں سے ٹکرایا جس سے بڑے پیمانے پر تیز ہوائیں چلیں‘ گرد و غبار اُٹھا اور گرج چمک کے ساتھ بارش دیکھی جا رہی ہے چونکہ پاکستان میں بجلی کی فراہمی کا نظام زیادہ مثالی شکل میں موجود نہیں اِس لئے کسی قدرتی آفت کی صورت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کی وجہ سے بھی شہریوں کے معاملات زندگی متاثر ہوتے ہیں اور ایسی ہی شکایات سننے میں آ رہی ہیں جبکہ سمندری طوفان کی وجہ سے تجارت بھی روک دی گئی ہے اور سمندری طوفان کی وجہ سے گیس (آر ایل این جی) کی شپنگ میں خلل پڑا ہے۔سمندری طوفان کے ظہور اور پاکستان کی طرف بڑھنے کی بنیادی وجہ ’موسمیاتی تبدیلی‘ ہے جس کے لئے اگرچہ تن تنہا ذمہ دار نہیں لیکن پاکستان کو اِس موسمیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اور تن تنہا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے اور سردست اِن موسمیاتی آفات سے بچاو¿ کی کوئی صورت بھی نہیںکی ہے لیکن اگر ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت اور رفتار میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں اور ماحول سے لاپرواہی والا تعلق ختم کیا جائے تو کم سے کم اتنا بھی ممکن ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں جو اپنی موجودہ شکل و صورت میں یہاں وہاں تباہی پھیلا رہی ہیں تو اِنہیں بڑی حد تک مزید بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ صرف ’سوشل میڈیا اکاو¿نٹس‘ سے ماحول دوستی اپنانے کی تلقین کرنے سے برسرزمین حقائق تبدیل نہیں ہوں گے اور نہ ہی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ موجودہ سمندری طوفان سے بچانے کے لئے ساٹھ ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے جبکہ ساحلی علاقوں میں رہنے والی 80 فیصد آبادی کا انخلا¿ بھی قطعی معمولی بات نہیں ہے۔ اگرچہ سمندری طوفان کا زیادہ تر زور بھارت کی طرف ہے لیکن ’بیپرجوئے‘ کے شدید اثرات کا سامنا پاکستان کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت کے محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) نے کئی ریاستوں کے لئے موسمی انتباہ (وارننگ) جاری کی ہے اور حکومت ہند نے ریاست گجرات میں ہنگامی صورتحال کا نفاذ بھی کر رکھا ہے۔ بھارت اور پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین سمندری طوفان کا سامنا اور مشاہدہ کر رہے ہیں! ساحلی شہروں میں آبادی دیگر شہروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ تجارتی مراکز ہوتے ہیں۔ چونکہ اِس آبادی کی اکثریت کا تعلق آمدنی کے لحاظ سے کمزور آبادیوں میں ہوتا ہے اِس لئے متاثرین صرف وقتی طور پر نہیں بلکہ روزگار و معاشی نقصانات کی صورت بھی متاثر ہوتے ہیں جن کے بارے میں خاطرخواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ یومیہ اُجرت (دیہاڑی) پر کام کرنے والے مزدوروں‘ محنت کشوں کے لئے کسی ایک دن کام کاج نہ ہونا کسی ڈراﺅنے خواب جیسا ہوتا ہے اور ایسی کسی صورتحال کی وجہ سے اچانک نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اگر متعلقہ حکومتی امدادی ادارے آمدنی کے لحاظ سے کمزور طبقات کی معیشت و معاشرت (معاشی بہبود) کا بھی خیال کریں تو یہ اضافی حسن ہوگا۔ ایک مرتبہ پھر کراچی شہر کے کئی علاقوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے سیلاب کے باعث معمولات زندگی بالخصوص کاروباری سرگرمیاں معطل ہوئیں۔ شہری علاقوں کی توسیع و آباد کاری میں خاطرخواہ منصوبہ بندی کا فقدان بھی سمندری طوفان نے ظاہر کر دیا ہے جیسا کہ کراچی کا مہنگا ترین اور مبینہ جدید ترین رہائشی علاقہ ’ڈی ایچ اے‘ کے رہائشیوں کو بھی سمندری طوفان کی وجہ سے رضاکارانہ انخلا¿ کا حکم دیا گیا ہے۔ اِسی طرح ’کیٹی بندر‘ جو کہ طوفان سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہے سے آبادی کا انخلا¿ ہونے سے جانی نقصانات تو کم ہوں گے لیکن مکانات کو پہنچنے والے نقصانات اپنی جگہ سمندری طوفان کا خمیازہ ہوں گے۔ جن علاقوں سے شہریوں کو رضاکارانہ انخلا¿ کا حکم دیا گیا ہے وہ اِس حکم کی تعمیل نہیں کر رہے اور وجہ کہ اگر گھروں اور کاروبار کو چھوڑ کر نقل مکانی کی جائے تو اندیشہ ہے کہ چوریاں ہوں گی۔پاکستان ”موسمیاتی تبدیلی کا ہاٹ سپاٹ“ قرار دیا گیا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے نتیجے میں کئی شعبوں میں انتظامی خامیاں‘ کمزوریوں اور بدعنوانیاں سامنے آئی ہیں اور یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ گلیشیئرز (برفانی تودے) پگھلنے سے دریاو¿ں کی تہہ میں ’کاربن کے ذرات (آلودگی) جمع ہو گئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے جبکہ اِس کی وجہ سے زیرآب زندگی متاثر ہے۔ دریاو¿ں اور سمندروں سے اِنسانوں کو حاصل ہونے والی خوراک میں کمی کی وجہ سے ’غذائی عدم تحفظ‘ میں اضافہ اپنی جگہ پریشان کن ہے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ممالک کاربن کے اخراج میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ترقی پذیر ممالک کے پاس اِس قدر وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اپنے طور پر ہنگامی صورت حال اور اِس کے بعد امداد و بحالی کی سرگرمیوں کو آگے بڑھا سکیں چونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کا ظہور تواتر سے ہو رہا ہے اِس لئے ’بیمہ (انشورنس)‘ کے ذریعے کم آمدنی رکھنے والے طبقات کے مفادات اور مستقبل کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے اور اگرچہ نئے مالی سال دوہزارتیئس چوبیس کے بجٹ میں اِس مقصد کے لئے رقم مختص نہیں کی گئی لیکن یہ نظرانداز مگر اہم ضرورت ہے۔ ماحول کے بارے میں دنیا فکرمند تو ہے جیسا کہ حالیہ ’سی او پی ستائیس‘ نامی اجلاس کے شریک ممالک کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں پر اظہار تفکر کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنے پر اتفاق رائے ہوا لیکن ترقی یافتہ (سرمایہ دار) ممالک پر مسلسل زور دیا جانا چاہئے کہ وہ اپنے کئے ہوئے وعدے پورے کریں‘ ماحول کو نقصان پہنچانے والے عوامل کی اصلاح کریں اور ہمارے گردوپیش میں ماحولیات کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُسے روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ سمندری طوفان بیپرجوئے اور دیگر ’موسمیاتی (قدرتی) آفات‘ خطرے کی گھنٹیاں ہیں جو مسلسل بج رہی ہیں اور اِن سے آنکھیں چرانا یا اِن کا خالی ہاتھ سامنا کرنے سے وہ مشکل حل نہیں ہوگی جو صحرائیت اور مٹی میں نمکیات کی مقدار میں اضافہ کی وجہ سے درپیش ہے۔