غیر ملکی امداد غریب ممالک کو خوشحال بنانے کے لئے نہیں بلکہ اُنہیں خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونے میں مدد کے طور پر دی جاتی ہے یعنی غیرملکی امداد معاشی مسائل کا پائیدار حل نہیں ہوتی اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ غیر ملکی امداد ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ کئی اور پہلوﺅں کو مدنظر رکھتے ہوئے دی جاتی ہے۔ امداد کے اِن پہلوو¿ں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ مالی طور پر مستحکم ممالک اپنے سٹریٹجک اہداف کے حصول کے لئے امداد کو کس طرح استعمال کرتے ہیں جس کی روشنی میں کسی ملک کی ناتواں معیشت کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ حالیہ چند برس کے دوران عوامی جمہوریہ چین صرف پاکستان ہی کے لئے بلکہ دنیا کے کئی دیگر معاشی مسائل سے دوچار ممالک کی امداد کر رہا ہے۔ افریقہ اور ایشیا کے غریب ممالک کا چین کی امداد پر بڑھتا ہوا انحصار مستحکم معیشت رکھنے والے طاقتور ممالک بالخصوص امریکہ کے لئے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ مالی امداد کے ساتھ چین کا اثرورسوخ بھی بڑھ رہا ہے اور جن ممالک کو چین کی طرف سے مالی امداد مل رہی ہے وہ اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال مرتب کرتے ہوئے چین کی پسندوناپسند کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ صورتحال ”کچھ دو‘ کچھ لو“ جیسی ہے جسے ہر ملک اپنے اپنے مفاد کے نکتہ¿ نظر سے دیکھتا ہے اِس منظرنامے میں چین اپنی سرحدوں سے باہر پھیل رہا ہے جس کے اثر و رسوخ کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔ امریکہ کے پالیسی ساز غریب ممالک پر اثر انداز ہونے کے لئے چین کی جانب سے ’قرضوں کی سفارت کاری‘ پر تنقید کرتے ہیں تاہم یہی ’مالی ہتھیار‘ امریکہ بھی استعمال کرتا رہا ہے اور اِسی کی بنیاد پر امریکہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتا آیا ہے تاہم امریکہ کی حکمت عملی چین سے مختلف ہے کہ وہ ضرورت مند ممالک کو قرض دینے کی بجائے انہیں ’امداد (گرانٹ) دینے کو ترجیح دیتا ہے اور پھر اِن آسان گرانٹس کو اپنے قومی مفادات کے حصول کے ذرائع کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ امریکہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے مالیاتی اداروں کا بھی استعمال کرتا ہے‘ جو مارکیٹ پر مبنی اصلاحات نافذ کرنے کے لئے مشروط قرضے دیتے ہیں تاکہ مغربی ممالک نوآبادیاتی دور کے بعد قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ممالک سے مزدوروں اور خام مال کی وصولی جاری رکھی جا سکے۔ خاص بات یہ ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب چین خود امداد حاصل کرنے والا ممالک کی فہرست میں شامل ہوتا تھا تاہم گزشتہ ایک دہائی کے دوران‘ چین قرض لینے والا نہیں بلکہ قرض دینے والے ملک کے طور پر اُبھرا ہے۔ چین بنیادی طور پر دنیا بھر میں نقدی کی کمی کا شکار ممالک کو اُسی شرح سے قرض دیتا ہے جو مغربی عطیہ دہندگان ممالک کی طرف سے دی جانے والی امداد کے مساوی ہوتا ہے۔ امریکہ میں قائم ریسرچ لیب ایڈ ڈیٹا کے محققین کے مطابق چین نے سال 2021ءکے دوران غریب ممالک کو 800 ارب ڈالر دیئے۔ سرکاری قرضوں کے علاوہ چین ممالک کو ’پوشیدہ قرضے‘ بھی فراہم کرتا ہے جن کی تفصیلات سرکاری دستاویزات میں ظاہر نہیں کی جاتیں۔ ترقیاتی مالیات کے ایک بڑے ذریعہ (قرض دہندہ) کے طور پر چین کی حکمت عملی اور قرض دینے کے طریقہ¿ کار کی شفافیت کے بارے میں مغربی ممالک شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے قیاس آرائیاں کرتے ہیں کیونکہ مالیات ہو یا دیگر امور‘ چین کسی بھی ملک سے اپنے تعلقات اور بات چیت کے بارے میں بنیادی نوعیت کی اور بہت ہی کم معلومات جاری کرتا ہے اور چین کی جانب سے غیرملکی حکمت عملیوں کے بارے میں محتاط انداز میں تبصرے کئے جاتے ہیں۔ چین قرض دینے سے پہلے بات چیت کس طرح کرتا ہے اور قرضوں سے وابستہ شرائط کیا ہوتی ہیں‘ اِن تفصیلات کو صیغہ¿ راز میں رکھا جاتا ہے۔ درحقیقت چین بقائے باہمی کے اَصول پر ’ترقیاتی تعاون‘ کو اہم سمجھتا ہے اور یہی وہ حکمت عملی ہے جسے چینی ماڈل کہا جاتا ہے۔ چین کے لئے یہ بات بھی ضروری نہیں کہ کسی ملک کا طرزحکمرانی کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چین کسی بھی طرح کی حکومتوں کو امداد فراہم کرنے سے نہیں ہچکچاتا جبکہ مغربی ممالک ’ذاتی مفادات‘ کے تحفظ کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ سرد جنگ کے دور سے لے کر اب تک بہت سی غیر جمہوری حکومتیں امریکی فنڈنگ کی وجہ سے اقتدار میں رہی ہیں۔ مزید برآں اگرچہ ترقی کے مغربی ماڈل بہ ظاہر انسانی حقوق کی شرکت اور احترام کی ضرورت پر زور دیتے ہیں لیکن مغربی غلبے والی بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسیوں کی طرف سے فروغ دی جانے والی ’ترقیاتی حکمت عملی کچھ اور بن جاتی ہے اور اکثر بگڑتی ہوئی عدم مساوات کی قیمت پر ترقی کو فروغ ملتا ہے۔ ایک دہائی سے چین نے مغربی ممالک کی طرح ترقیاتی امداد کے ساتھ سیاسی مقاصد بھی جوڑ لئے ہیں۔ چین جن ممالک کو امداد یا قرض دیتا ہے وہ چین کی خارجہ پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں۔ اِس طرح اگرچہ چین نے عالمی جنوب (گلوبل ساو¿تھ) کے لئے ترقیاتی مالی اعانت کا ’متبادل ذریعہ‘ فراہم کیا ہے لیکن چینی ترقیاتی امداد کا ماڈل کئی طرح سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے کچھ مختلف ضرور ہے۔ حقیقت جو بھی ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چین اس وقت پوری طرح عالمی معاشی ڈھانچے میں تبدیلی کے لئے سرگرم ہے اور اس نے امریکہ سمیت مغربی ممالک کو مشکل کا شکار کردیا ہے چین کی پالیسی مختلف جہت کے ساتھ ممالک کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہے اور آئے روز دنیا کے اہم ترین ممالک چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کے عمل میں مصروف نظر آتے ہیں۔