بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) چاہتا ہے کہ حکومت اپنی آمدنی اور اخراجات کے درمیان موجود فرق ٹیکس کی شرح میں اضافے یا نئے ٹیکس عائد کر کے پوری کرے علاؤہ ازیں جن شعبوں کو ٹیکسوں سے چھوٹ دی گئی ہے اُن سے ’پورا ٹیکس‘ وصول کیا جائے اور حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈیز ختم کی جائیں۔ ’آئی ایم ایف‘ کا استدلال ہے کہ ٹیکس میں دی جانے والی رعایتوں کو صرف صحت‘ تعلیم و سماجی تحفظ بہتر بنانے کے لئے استعمال کیا جائے۔ ’آئی ایم ایف‘ نے وفاقی بجٹ کے بعد اِس بات پر زور دیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں خسارے کا حل ضروری ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں مالی استحکام کی کوششیں خاطرخواہ کامیاب نہیں ہو رہیں اور یہ ’بڑا خطرہ‘ ہیں۔ ’آئی ایم ایف‘ کے بیان کے جواب میں حکومت پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ وہ ’آئی ایم ایف کا اصلاحاتی پروگرام‘ مکمل کرنا چاہتی ہے لیکن اُسے ترقی و روزگار کو فروغ دینے کے لئے ٹیکس مراعات بحال رکھنا ہوں گی جیسا کہ مختلف شعبوں کو ملنے والے خام مال اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) آلات کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی حکومتی نکتہئ نظر سے ضروری ہے کیونکہ اِس سے صنعت کی بحالی اور ’آئی ٹی‘ کے شعبے کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ اگر ہم گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران ٹیکس وصولی کو دیکھیں تو اِس میں ٹیکس دہندگان کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے اور آئندہ مالی سال کے لئے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کا ہدف 24فیصد رکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان اپنے محصولات کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے بھی پرعزم ہے۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بجٹ میں وفاقی ترقیاتی اخراجات (پی ایس ڈی پی) کے لئے 37فیصد زیادہ مالی وسائل مختص کئے گئے ہیں جو اِس بات کی عکاسی ہے کہ حکومت ترقی کے عمل کو نظر انداز نہیں کر رہی۔ واضح ہے کہ قومی خزانے کی حالت‘ مہنگائی میں اضافے اور قومی پیداوار میں کمی و بیروزگاری سے پیدا ہونے والے ماحول میں جس قسم کے بجٹ کی توقع کی جا رہی تھی وفاقی بجٹ اُس قدر حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ وزیر خزانہ نے درست کہا ہے کہ بجٹ کا مقصد ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو میں اضافہ کرنا ہے لیکن آئی ایم ایف کو شک ہے کہ پاکستان اپنے ’نان ایف بی آر‘ ریونیو میں 88 فیصد اضافہ کر سکتا ہے جس سے اِسے قریب تین کھرب روپے حاصل ہوں گے اور اِس بات کا تذکرہ ’بجٹ دستاویز‘ میں بھی کیا گیا ہے۔ اگر حکومت خاطر خواہ ریونیو حاصل کر لیتی ہے تو ’آئی ایم ایف‘ ٹیکس میں دی گئی رعایت اور حکومتی اخراجات پر اعتراض نہیں کرے گا تاہم قرض کی ادائیگی سمیت دیگر تمام اخراجات کی ادائیگی کے لئے مجبوراً قرض لینا پڑے گا۔ اِس حوالے سے ’آئی ایم ایف‘ کا خیال ہے کہ حکومت کو بیرونی قرضوں پر انحصار نہیں کرنا چاہئے۔رواں مالی سال (دوہزار بائیس تیئس) میں پاکستان نے قومی خسارے کو پورا کرنے کے لئے بیرونی ذرائع (کثیر الجہتی اور دوطرفہ) سے مجموعی طور پر 5.5 کھرب روپے قرض لینے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اِسے صرف 3.2 کھرب روپے حاصل ہو سکے۔ آئندہ مالی سال کے لئے حکومت نے بیرونی قرض دہندگان سے 6.8 کھرب روپے قرض لینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اگر پاکستانی روپے کی قدر کو 290 روپے فی امریکی ڈالر تصور کرتے ہوئے اِس قرض کے حجم کا اندازہ لگایا جائے تو یہ 23 ارب ڈالر بنتے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ ہے۔ بجٹ دستاویز میں چند مفروضوں کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بالترتیب 580 ارب روپے (یعنی 2 ارب ڈالر) اور 290 ارب روپے (یعنی ایک ارب ڈالر) کے نئے کمرشل ڈیپازٹ حاصل ہوں گے۔ رپورٹ میں یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ چین رواں مالی سال کے مقابلے میں اپنے ڈیپازٹس کو دوگنا کر دے گا اور کمرشل بینک پاکستان کو دیئے جانے والے اپنے قرضوں میں تقریبا ًتین گنا اضافہ کرے گا جس سے چین کی طرف سے ملنے والے قرض کا حجم ’4.6 ارب ڈالر‘ تک پہنچ جائے گا۔ بجٹ میں یہ بھی فرض کیا گیا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی سکوک اور بانڈز کے ذریعے 435 ارب روپے (1.5 ارب ڈالر) بآسانی جمع (حاصل) کر لے گا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ پاکستان کو اگلے مالی سال (دوہزارتیئس چوبیس) میں 696 ارب روپے یعنی 2.4 ارب ڈالر قرض دے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستان آئندہ چند روز میں ختم ہونے جا رہے مالی سال میں تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ’آئی ایم ایف‘ سے قرض حاصل نہیں کر سکا تو کس طرح ممکن ہے کہ اگلے مالی سال میں ’آئی ایم ایف‘ سے بآسانی سے 2.4 ارب ڈالر حاصل کر سکے گا؟ اگلے ’آئی ایم ایف‘ پروگرام کی طرف بڑھنے کے لئے پاکستان کو پہلے موجودہ پروگرام کے باقی ماندہ امور مکمل کرنا ہوں گے اور یہ کام (عمل) نہ تو آسان ہے اور نہ ہی فوری طور پر سرانجام دیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے لئے سیاسی استحکام اور سیاسی عزم نو کی ضرورت بھی ہے۔