ایشین سیریز کی تاریخ

 انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان گزشتہ 141 سال میں اب تک ایشز کے تحت مجموعی طور پر 340 ٹیسٹ میچ کھیلے جاچکے ہیں جس میں 140 میچ جیت کر آسٹریلیا کو برتری حاصل ہے۔انگلینڈ کی ٹیم نے اب تک 108 میچ اپنے نام کئے ہیں جب کہ 92 میچز ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ہی ختم ہوئے۔اس بار بھی دونوں ٹیمیں پانچ ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کھیلیں گی۔ آسٹریلیا نے حال ہی میں بھارت کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپین شپ کے فائنل میں شکست دی تھی لیکن اس بار اس کا مقابلہ بیزبال کے نام سے ٹیسٹ کرکٹ کو جدت بخشنے والی انگلش ٹیم کے ساتھ ہے۔بظاہر تو اس وقت آسٹریلیا اور انگلینڈ کے کھلاڑیوں کی آن فیلڈ کنڈکٹ مثالی ہے، لیکن ماضی میں ایسا نہیں ہوتا رہا ہے۔ موجودہ انگلش ٹیم میں دو کھلاڑی ایسے بھی شامل ہیں جو ماضی کے بڑے تنازعات کا حصہ رہ چکے ہیں۔ایسے ہی چند اہم تنازعات پر نظر ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے ایشز سیریز موضوعِ بحث ہوتی ہے۔انگلش کرکٹ ٹیم میں ایشز سیریز کے لئے ریٹائرمنٹ ختم کرکے واپس آنے والے معین علی کا شمار دنیا کے بہترین آل رانڈرز اور اچھی طبیعت رکھنے والے کرکٹرز میں ہوتا ہے۔معین علی نے یہ بھی کہا کہ بعد میں انہوں نے کوچ ٹریور بیلس اور کچھ ساتھیوں کو اس واقعے سے آگاہ کیا۔ جب انگلش کوچ نے اپنے ساتھی ہم منصب کی اس جانب توجہ دلائی تو ان کا کہنا تھا کہ اس کھلاڑی نے صحت جرم سے انکار کیا‘ انگلینڈ کی جانب سے دوسرے سب سے کامیاب فاسٹ بالر اسٹورٹ براڈ بھی اس سیریز کا حصہ ہیں اور ماضی کی طرح اس بار بھی انگلش ٹیم کی جیت میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں‘ٹرینٹ برج کے مقام پر کھیلے گئے میچ کے دوران براڈ کو آسٹریلوی آف اسپنر ایشٹن ایگر نے وکٹ کے پیچھے کیچ آؤٹ کیا۔ فیلڈ پر موجود تمام افراد نے دیکھا کہ گیند بلے کو چھوتے ہوئے وکٹ کیپر بریڈ ہیڈن کے ہاتھوں سے ٹکرا کر سلپ میں کھڑے مائیکل کلارک کے ہاتھوں میں گئی، لیکن پاکستانی
 امپائر علیم ڈار نے اسے ناٹ آؤٹ قرار دے دیا۔جب امپائر نے فیصلے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھایا تو اسٹورٹ براڈ نے بھی وکٹ نہیں چھوڑی اور اس طرح کھڑے رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں‘ویسے تو آسٹریلوی کھلاڑی ڈینس للی کی وجہ شہرت ان کی بالنگ ہے لیکن ایک بار 1979 میں انہوں نے بطور بلے باز کرکٹ کی تاریخ بدلنے کی کوشش کی تھی، جو انہیں بہت مہنگی پڑی تھی۔پرتھ میں کھیلے جانے والے اس میچ میں جب ڈینس للی بیٹنگ کے لئے وکٹ پر گئے تو ان کے ہاتھ میں لکڑی کا نہیں بلکہ المونیم کا بیٹ تھا جسے ان کے دوست کی کمپنی نے تیار کیا تھا‘چوں کہ اس وقت کرکٹ قوانین میں درج نہیں تھا کہ بلا صرف لکڑی کا ہونا چاہیے اس لئے میچ کو جاری رکھا گیا لیکن جب انگلش کپتان مائیک بریرلی نے امپائرز کی توجہ بال کی بگڑتی ہوئی شکل کی جانب دلائی تو امپائرز نے ڈینس للی کو لکڑی کا بلا استعمال کرنے کے لئے کہا، جس پر پہلے انہوں نے غصہ کیا اور پھر بلا نہ بدلنے پر
 اصرار کیا۔آسٹریلوی کپتان گریگ چیپل نے معاملے کو سلجھانے کے لئے ڈینس للی کو لکڑی کا بیٹ لا کر دیا جس کو انہوں نے تھامنے سے پہلے المونیم کا بیٹ غصے میں پویلین کی جانب پھینک دیا۔اس واقعے کے بعد کرکٹ قوانین میں تبدیلی لائی گئی تاکہ کوئی بھی کھلاڑی لکڑی کے سوا کسی اور چیز کا بنا بلا استعمال نہ کرسکے۔جب کرکٹ تنازعات کی بات ہوگی تو باڈی لائن کا ذکر اس میں سب سے پہلے آئے گا‘33۔ 1932ء کے سیزن میں کھیلی جانیوالی ایشز سیریز میں انگلش ٹیم نے میزبان آسٹریلیا کو قابو کرنے کے لئے جو پلان بنایا، اسے آج باڈی لائن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس پلان کے خالق انگلش ٹیم کے کپتان ڈگلس جارڈین تھے جنہوں نے اپنے بالرز کو ہدایات دی تھیں کہ وہ سر ڈان بریڈمین اور ان کے ساتھی بلے بازوں کو رنز بنانے سے روکنے کے لئے ان کی باڈی کو نشانہ بنائیں، نہ کہ وکٹ کو‘انگلش پیسرز نے اپنے کپتان کے اس پلان کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پانچ ٹیسٹ میچوں کے دوران شارٹ پچ گیندیں پھینکیں جس سے یا تو کئی آسٹریلوی بلے باز زخمی ہوئے یا پھر اپنے جسم کو بیٹ سے بچاتے بچاتے کیچ آؤٹ ہوئے۔