گندم کا مسئلہ

قیمتوں میں اضافے، زرمبادلہ کے کم ہوتے وسائل او ر دیگر معاشی مشکلات کےساتھ پاکستان معاشی طور پر مشکل دور سے گزر رہا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ پچھلی کئی دہائیوں سے بنایا گیا عالمی سیاسی اور معاشی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کیونکہ ہم افراتفری کے ساتھ ایک کثیر قطبی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں مختلف بڑی طاقتیں اقتدار کےلئے لڑ رہی ہیں‘ اس سے نہ صرف عالمی معیشت میں انتشار پیدا ہو رہا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں تجارت میں خلل پڑ رہا ہے، اور خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کی بلند اور غیر مستحکم قیمتیں ہیں۔ان قومی اور بین الاقوامی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اہداف اور پالیسیوں کو احتیاط سے ترتیب دے۔ دوسری طرف ہم ملکی وسائل جیسے کہ زمین، پانی اور اپنی محنتی مزدور قوت کا صحیح استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ ہم غیر ضروری اشیا یا اجناس درآمد کر رہے ہیں جو ہم خود پیدا کر سکتے ہیں۔ اور ہماری غیر ملکی زرمبادلہ کی کمائی گھریلو کاروباریوں کی کوششوں کے بجائے غیر ملکیوں کی ترسیلات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ ہائی ٹیک، ہائی ویلیو ایکسپورٹ پر مبنی سرگرمیوں میں توسیع ‘جو ملک کی طویل مدتی فلاح و بہبود کےلئے ضروری ہے ۔پاکستان کو بہت سے شعبوں میں پالیسی ری سیٹ کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اکثر اہداف کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک آلات اور پروگرام بھی غیر موثر ہوتے ہیںپالیسی ری سیٹ شروع کرنے کےلئے ایک اچھی جگہ گندم کا شعبہ ہو گا۔ زیادہ تر پاکستانیوں کےلئے گندم بنیادی غذا ہے اور ہماری کیلوریز کا بڑا حصہ بناتی ہے‘ 2010 تک کی دہائیوں میں پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ 1990میں پیداوار 14.4 ملین ٹن تھی اور 2011میں 25 ملین ٹن سے تجاوز کر گئی تقریبا 20 سالوں میں 75 فیصد کا اضافہ‘ اس کے بعد سے ترقی بہت سست رہی ہے ‘ 2021 میں پیداوار 27.5 ملین ٹن تک پہنچنے میں 10 سال لگے ۔ گندم کی پیداوار میں سست نمو نے پاکستان کو غیر ملکی سپلائی پر انحصار بڑھا دیا ہے‘ 2 سے 3 ملین ٹن کے درمیان ہماری ضروریات کا تقریبا ً10% درآمد کیا جا رہا ہے۔ رواں مالی 
سال میں، پاکستان پہلے ہی 2.7 ملین ٹن گندم درآمد کرنے کے لئے تقریبا ً1 بلین امریکی ڈالر خرچ کر چکا ہے۔گندم کی پیداوار کو تیز کرنے اور درآمدات کو کم کرنے کی کوشش کرنے کے لئے، حکومت ان پٹ پر سبسڈی دینے اور ایک مقررہ قیمت پر گندم خریدنے پر اربوں خرچ کرتی ہے جو اکثر آزاد منڈی کے توازن کی قیمت سے زیادہ ہوتی ہے۔جو منطق اس پالیسی کو تقویت دیتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے: کھاد کی کم قیمتیں استعمال میں اضافہ اور پیداوار میں اضافہ کرے گی۔ اور گندم کی اونچی قیمتوں سے گندم کے لیے مختص کی گئی زمین کے تناسب میں اضافہ ہوگا جبکہ بیج، مشینری اور پانی جیسے ان پٹ میں سرمایہ کاری میں بھی 
اضافہ ہوگا۔ تاہم، پالیسی نے واضح طور پر کام نہیں کیا ہے۔لگائے گئے رقبے میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوا ہے اور پیداوار کم رہتی ہے۔تقریباً 3 ٹن فی ہیکٹر، جو کہ دوسرے موازنہ کرنے والے ممالک سے بہت کم ہے۔اس ناکامی کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔ کھاد کی سبسڈی بنیادی طور پر درمیانے اور بڑے درجے کے کسانوں کو جاتی ہے جو پہلے ہی کھاد کی بہترین سطح کے قریب استعمال کر رہے ہیں ‘ اس کے برعکس، غریب کسان، جن میں سے اکثر کھاد کی سب سے زیادہ مقدار استعمال کرتے ہیں، عام طور پر سبسڈی تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے‘ اسی طرح غریب کاشتکار اعلی سرکاری خریداری کی قیمتوں سے شاذ و نادر ہی فائدہ اٹھاتے ہیں - وہ عام طور پر فصل کی کٹائی کے وقت اپنی پیداوار جو بھی قیمت حاصل کرتے ہیں بیچ دیتے ہیں۔تاہم، نسبتاً آسان تبدیلیوں کے ذریعے گندم کی پیداوار میں اضافے کے قابل ذکر امکانات ہیں جیسے کہ کم 
کھیتی، تصدیق شدہ بیجوں کے استعمال میں اضافہ، سیڈ ڈرل کا استعمال، کھاد کے استعمال اور مٹی کے درمیان بہتر میچ، پانی کا زیادہ محتاط استعمال اور مائیکرو نیوٹرینٹ کا استعمال،. جدید سائلوز میں بہتر کٹائی، بلک ہینڈلنگ اور سٹوریج کے ذریعے آن فارم اور آف فارم نقصانات کو کم کرنے کی بھی بڑی صلاحیت موجود ہے۔لیکن اس تبدیلی کی قیادت کون کرے گا؟ حکومتی تحقیق اور توسیعی خدمات میں اصلاحات اور بہتری لانے کی ضرورت ہے‘مشینری فراہم کرنے والے، بیج اور کھاد فراہم کرنےوالے، تاجروں اور فنانسرز، سروس فراہم کرنےوالے اور، تیزی سے، نوجوان اور روشن نوجوان کاروباری افراد پر جو تجارتی زراعت میں مواقع دیکھتے ہیں اور اختراعات کرنے اور خطرات مول لینے کےلئے تیار ہیں کو مواقع دینے کی ضرورت ہے ‘موسمیاتی تبدیلیوں اور بالخصوص بارش کے بدلتے ہوئے نمونوں کے چیلنجوں سے نمٹنے کےلئے ایک زیادہ متحرک زرعی شعبہ بھی ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان اور سندھ کے کچھ بنجر علاقوں میں زیادہ بارش ہوئی ہے اور اس سے گندم کے ممکنہ رقبے میں اضافہ ہوا ہے‘ لیکن اس صلاحیت کا بہتر استعمال کرنے کےلئے موثر پیداواری نظام کی ضرورت ہوتی ہے‘ اچھی بارش کے سالوں میں، گندم کی بوائی کےلئے بیج، افرادی قوت اور آلات کو جلدی سے بنجر علاقوں میں منتقل کرنےکی ضرورت ہے‘ اسکے علاوہ، چھوٹی لیکن احتیاط سے ڈیزائن کی گئی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر، ذخیرہ کرنے اور پانی کے پھیلا ﺅکےلئے چھوٹے ڈیموں میں کی اشد ضرورت ہوگی اس کے ساتھ ساتھ کٹے ہوئے اناج کےلئے کم لاگت کے ساتھ ذخیرہ کرنے کی سہولیات بھی اہم ہیں‘اس حوالے سے حکومت کواپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے‘ خاص طور پر گندم اور متعلقہ اشیا ءخصوصا بیجوں میں ملکی اور بین الاقوامی تجارت میں مزید لچک کی ضرورت ہے۔ نجی شعبے اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سمیت تحقیق کےلئے مزید فنڈ مختص کرنا؛ اور پرائیویٹ سیکٹر کےلئے پہلے سے غیر کاشت شدہ علاقوں میں نئی زمینوں کے استعمال کےلئے حالات پیدا کرنا اہم ہے ۔