تارکین وطن : انسانیت کے دُکھ

غیرقانونی طریقے اختیار کرنے والے موت کو زندگی پر ترجیح دیتے ہیں جس سے ناقابل تلافی جانی نقصانات کی صورت سانحات رونما ہوتے ہیں اور ایسا ہی ایک حالیہ سانحہ بحیرہ روم میں پیش آیا ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں افراد ڈوب کر جاں بحق ہوئے ہیں اور چونکہ اِس قسم کا غیرقانونی دھندا جاری ہے اِس لئے شایدمزید سینکڑوں افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ چھ سو سے زائد تارکین وطن نے لیبیا سے یورپی ممالک میں پناہ لینے کے لئے اپنی زندگی کا انتہائی پُرخطر سفر کا آغاز کیا جو بعدازاں جان لیوا ثابت ہوا اور گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنے کی وجہ سے کشتی اُلٹ گئی جس کے المناک انجام سے پوری دنیا لرز گئی ہے۔ اِن مسافروں کی اکثریت کا تعلق پاکستان‘ افغانستان‘ مصر‘ فلسطین اور شام سے ہے اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے کم سے کم تین سو افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے اگرچہ اُن کی لاشیں تلاش کے باوجود نہیں ملیں کیونکہ جس جگہ کشتی اُلٹنے کا یہ حادثہ پیش آیا وہاں سمندر کافی گہرا بتایا جاتا ہے۔ توجہ طلب یہ بھی ہے کہ بار بار رونما ہونے اِس قسم کے سانحات کا وقتی طور پر نوٹس تو لیا جاتا ہے اور افسوس کا اظہار بھی ہوتا ہے تاہم موت کے خطرناک سفر کیلئے لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئے‘ یہ سوال بھی نہیں پوچھا جا رہا۔ اِس موقع پر یونانی حکام کے کردار کے بارے میں بھی سوالات اٹھتے ہیں‘ جو کشتی کے ڈوبنے سے پہلے وہاں موجود تھے اور وہ کشتی کو چلانے والوں کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ جہاز کو یورپ سے دور دھکیلنے کی کوشش میں شاید یہ حادثہ پیش آیا تاہم بہت سارے سوالات و خدشات کا جواب ملنا ابھی باقی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وسیع پیمانے پر تحقیقات بھی جاری ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ سمندری حکام کی موجودگی میں اِس طرح کی آفات کیسے رونما ہو سکتی ہیں؟ ابتدائی الرٹ سے لے کر جہاز کے ڈوبنے تک پیش آنے والے واقعات کو سمجھنے کے لئے جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ ساحلی حکام کی جانب سے امداد فراہم کرنے میں ناکامی کسی ادارے کے اقدامات کی بجائے یورپی پالیسیوں میں مسائل کی نشاندہی ہے۔بہتر معاشی حالات اور روزگار کی تلاش کرنے والوں کے نکتہ¿ نظر کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب پاکستانی تارکین وطن سمندر میں ڈوب کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں بلکہ اس سے قبل بھی کئی ایک ایسے افسوسناک واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں نمایاں ترین ایک باصلاحیت کھلاڑی شاہدہ رضا کی موت تھی جو اپنے بیمار بیٹے کے علاج کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھی اور اُس نے یورپ جانے کی کوشش کی لیکن تب بھی تارکین وطن کو موت نے آ لیا تھا۔ پاکستان میں انسانی اسمگلروں کے گروہ (نیٹ ورک) سرگرم ہیں۔ باجود اس کے کہ قوانین و قواعد موجود ہیں کیوں انسانی اسمگلنگ کو روکنا ممکن نہیں ہو پا رہا! انسانی سمگلروں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی سے انصاف ملنے کی توقعات پوری ہو سکتی ہیں۔ وقت ہے کہ حکومتیں اور بین الاقوامی تنظیمیں بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کی بنیادی وجوہات پر غور کریں اور اِن سے نمٹنے کے لئے ممالک کو مربوط و مشترک لائحہ عمل کے تحت کام کرنا چاہئے۔ اس جامع نقطہ نظر میں معاشی مواقع اور انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس ختم کرنا بھی شامل ہے۔اس حوالے سے حکومت نے جوآپریشن انسانی سمگلروں کے خلاف شروع کیا ہے اس کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ ان عناصر کا مکمل خاتمہ ہو جائے جو نہ صرف ملکی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے وقتا ً فوقتاً قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا رہتا ہے یہ سلسلہ اب ختم ہو نا چاہئے اور انسانی سمگلروں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے۔