نصف آبادی مگر ادھوری آزادی 

ملک کی نصف آبادی کو کم سے کم اپنا کریئر بنانے کے لئے تو پوری آزادی ہونی چاہئے اور بارباریہ بتانے کی ضرورت اس لئے پیش آرہی ہے کہ کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی موجودہ دور میں اپنے بچوں کی تعلیم کے تعلق سے والدین اور سرپرستوں میں کافی حد تک بیداری پیدا ہو رہی ہے، امیر و غریب کے امتیاز کے بغیر تقریباً ہر طبقے میں تعلیم کو فوقیت دی جا رہی ہے، لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے بھی ماحول سازگار اور امید افزاءہو رہا ہے۔ البتہ چند معاملات اب بھی توجہ طلب ہیںجن میں سب سے ضروری لڑکیو ں کے اعتماد میں اضافہ ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ والدین بیٹوں کی طرح اپنی بیٹیوں کوبھی تعلیم کے نئے راستوں پر سفر کرنے اور نئے شعبوں کو چننے کی اجازت دیں۔ہرسال ہماری قوم کی چند ہونہار بچیاں مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے نہ صرف اپنا، اپنے والدین اور تعلیمی اداروں کا نام روشن کررہی ہیں بلکہ تعلیمی محاذ پر چھائی ہوئی ناا±میدی اور مایوسی کے غبار میں ا±مید اور روشنی کی کرنیںبھی ا±جاگر کر رہی ہیں۔ علم و عمل کی س±وکھی ہوئی دھرتی کو بارش کے پہلے قطروں کی طرح سیراب کرکے اپنے ساتھ چلنے والے اور اپنے پیچھے آنے والے تمام طلبہ میں مثبت تحریک ِ عمل کی نئی ر±وح پ±ھونکنے میں مصروف ہیں ۔یہ تمام باہمت اور محنتی طلبہ قوم کی جانب سے بے حد مبارک باد کے مستحق ہیں یہ امر کسی حد تک حوصلہ افزاءہے کہ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی ماحول سازگار اور امید افزا ہو رہا ہے ا±نہیں اب اپنی مرضی کی اور پسندیدہ فیلڈ میں قدم رکھنے کی قدرے آزادی میسر ہے، پرانے دور جیسی تنگ نظری اور پابندیاں کافی حد تک کم ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں مستقبل کا تعلیمی منظر نامہ روشن دکھائی دے رہا ہے، دوسری جانب اپنی اپنی اہلیت اور حاصل شدہ مواقع و سہولتوں کے مطابق نئی اونچائیاں اور کامیابیاں اپنے نام کرکے لڑکیاں بھی اپنے آپ کو ہر تعریف و توصیف کا حقدارثابت کر رہی ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو کیرئیر بنانے یا چننے کی اتنی آزادی میسر نہیں جتنی کے لڑکوں کوملی ہوئی ہے لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا مطلب صرف ایک خاندان اور نسل کو تعلیم یافتہ بنا نا ہی نہیں ہے بلکہ خواتین جو معاشرے کی تقریباً نصف آبادی ہیں ان کو سماج کے لئے کارآمد بنانا بھی ہے، اعلیٰ تعلیم کا حصول صرف ایک ڈگر ی اپنے نام کر لینے تک رہ جائے یہ بہتر نہیں، لڑکیوں کی تعلیم کا مقصد ا ن کے لئے اچھا رشتہ مل پانے کی تمنا جتنا محدود ہوجائے یہ بھی مناسب نہیں، لڑکیوں کے حوالے سے اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم اوران کی ڈگری ان کی شناخت نہیں بن پاتی بلکہ شادی بیاہ کے لئے درکار خوبیوں میں ایک اضافی خوبی شمار ہوتی ہے، ایم بی اے یا ڈاکٹر ٹیچر کیٹیگری بھی اسے معتبر بنانے میں ناکام رہتی ہے کیونکہ بدقسمتی سے رشتے کے وقت فریق ِ ثانی کی اولین ترجیح اعلیٰ تعلیم نہیں بلکہ لڑکی کا امور خانہ داری میں طاق ہونا، سلائی بنائی اور دیگر آرائشی و فنی ہنر مند ی سے آراستہ ہونا ہوتا ہے، گویا تعلیمی قابلیت ایک ثانوی چیز بن گئی ہے‘ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود لڑکیوں سے صرف اور صرف گھر داری کی توقع ہی رکھنا ایک طرح کی ناانصافی اور ان کی قابلیتوں کی ناقدری ہے جبکہ ہماری بچیوں نے بارہا ثابت بھی کیا ہے کہ ان میں اتنی قوتِ ارادی، ذہنی وجسمانی استعداد ہے کہ وہ گھر اور دفتر کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کر سکتی ہیں۔ اگر اپنوں کا ہمدرد رویہ اور تعاون شاملِ حال ہو تو ان کی راہیں اور آسان ہو سکتی ہیں۔تعلیمی میدان میں گو کہ لڑکیوں کیلئے صورتحال قدرے تسلی بخش ہو گئی ہے مگر ایک مسئلہ اب بھی توجہ طلب ہے کہ عملی زندگی میں اس تعلیم کو کامیاب کیریئر میں بدلنے کے حوالے سے کئی رکاوٹوں اور کئی مشکلات کا سامنا رہتا ہے کیونکہ سرپرستوں کو لڑکیوں کی متعدد شعبہ جات میں کام کرنے کے تعلق سے کئی فرضی اور غیر واجبی تحفظات لاحق ہو جاتے ہیں اس وجہ سے صرف چند رائج اور روایتی شعبوں تک ہی لڑکیوں کی صلاحیتوں کو محدود کر دینا یااکثر اوقات اعلیٰ تعلیم دلانے کے با وجود ان باصلاحیت بچیوں کو عملی زندگی میں اپنی تعلیمی قابلیت کو بطور پیشہ استعمال کرنے سے روک کر انہیں ایک عضو معطل بنا دینا عام ہے۔ گویابچیوں کو تعلیم دلا کر ہم انہیں اڑنے کے لئے پَر توفراہم کر دیتے ہیں مگر ان کا آسمان محدود کر دیتے ہیں، اس پرانی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ آج ہماری قوم کو قابل اساتذہ اور ڈاکٹرز، انجینئرز کی جتنی ضرورت ہے اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہمارے جائزحقوق اور مطالبات پہنچانے اور ان کی شنوائی کو ممکن بنانے کیلئے حکومتی انتظامی اداروں، عدالتوں، تھانوں، سیاست ہر جگہ ہماری کوئی آواز اور نمائندگی موجود ہو اور یہ سب تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم تعلیم کے حصول کے نئے رخ اور وقت کی ضرورت کے مطابق اپنی ترجیحات طے کریں۔ دورِ حاضر میںوقت اور حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہمارے بچے تعلیم و ترقی کے نئے اور اعلیٰ معیاروں تک، مقابلہ جاتی امتحانوں اور حکومتی اداروں تک رسائی پانے کے لئے کمربستہ ہوں۔ سرپرستوں اوروالدین کی جانب سے ان طلبہ کی ذہن سازی و رہنمائی، تعلیمی کفالت اور سہولتیں میسر ہو سکیں تواس نصب العین کو پورا کرنا کچھ دشوار نہیں ہوگا۔ لڑکیوں کی کامیابی دیکھ کر ان لڑکوں میں بھی کچھ بہتر کر گزرنے کی تحریک ضرور جاگے گی جو اس وقت اپنی توجہ کسی اورجانب مبذول کئے ہوئے ہیں؛ضرورت ہے کہ سرپرست اور والدین بیٹوں کی طرح اپنی بیٹیوں کوبھی تعلیم کے نئے راستوں پر سفر کرنے اور نئے شعبوں کو چننے کی اجازت دیں، ان پر یقین رکھیں اور درکار سہولتوں کی فراہمی ممکن کریں، بلا شبہ بیٹیاں تو بالکل مایوس نہیں کریں گی ملک کی نصف آبادی کو اپنا مستقبل سنوارنے کی پوری اجازت ہونی چاہئے اور امید رکھی جانی چاہئے کہ ایک تعلیم یافتہ اوربرسرروزگار ماں اپنے بچوں کے لئے زیادہ آئیڈیل ثابت ہوسکتی ہے اور اس سلسلہ میں ملک کی سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرناہوگا اس بارانتخابی منشورکی تیار ی میں نصف آبادی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے حقیقت پسندانہ اقدامات کاذکرکرناہوگا۔