ایک اخباری رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا اور وفاق کے مختلف سرکاری محکموں کے ذمے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چھ ارب اسی کروڑ پچاس لاکھ روپے کے بقایاجات ہیں۔وزارت توانائی کی جانب سے چیف سیکرٹری کو مراسلہ بھیجاگیا تھا کہ صوبائی محکمے اپنے بجلی کے بقایاجات ادا کریں۔محکمہ خزانہ نے سرکاری محکموں کو صرف تنخواہوں اور پنشن کی رقم کے سوا کوئی ادائیگی نہ کرنے کی ہدایت کی جس پر پیسکو نے نادہندہ سرکاری اداروں کی بجلی منقطع کرنے کی مہم شروع کردی ہے اور اب تک متعدد سرکاری محکموں کی بجلی کاٹ دی ہے۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں انہی نادہندگان کی وجہ سے مسلسل خسارے میں جارہی ہیں اور خسارہ پورا کرنے کے لئے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے جس کا اثر ہر ماہ باقاعدگی سے بجلی کے بل ادا کرنے والے صارفین پر پڑتا ہے۔عام صارف بجلی بل جمع کرانے کے لئے لوگوں سے قرضے لیتا ہے پھر سردی اور گرمی کی پروا کئے بغیر بینک کے باہر گھنٹوں لائن میں بل جمع کراتا ہے۔ کیونکہ ایک مہینے کا بل جمع نہ ہونے کی صورت میں اگلے مہینے میٹر ریڈر اس کا میٹر ہی غیر قانونی طور پر اتار کر لے جاتا ہے۔ پھر اسے بحال کرنے کے لئے منت سماجت کے علاوہ ہزاروں کا اضافی خرچہ بھی کرنا پڑتا ہے۔عام لوگوں کو قانون سے واقفیت نہیں ہوتی۔ میٹر صارف کی ذاتی ملکیت ہوتا ہے۔اسے اتارنے کا میٹر ریڈر کو حق حاصل نہیں۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی ان ستم سامانیوں کی وجہ سے لوگ کنڈے لگا کر بجلی استعمال کرتے ہیں اور تین تین، چار چار ائر کنڈیشن چلاتے ہیں۔پشاور کے نواحی علاقوں میں عصر کے بعد اکثر لوگ میٹر بند کرکے کنڈے لگاتے ہیں اور ساری رات مفت بجلی استعمال کرتے ہیں‘ صبح ہوتے ہی کنڈے اتارتے اور میٹر آن کرتے ہیں۔جب نادہندہ سرکاری اداروں سے وصولیوں کی بات آتی ہے تو چارہ گر خود بے چارے بن جاتے ہیں۔سرکاری محکموں کے ذمے جو چھ ارب اسی کروڑ پچاس لاکھ کے بقایاجات ہیں وہ ایک دو مہینوں کے نہیں بلکہ کئی سالوں کے بل ہیں‘کسی بھی سرکاری دفتر میں جائیں تو کرسیاں خالی ملیں گی مگر ائرکنڈیشنرز ، پنکھے اور لائٹیں لگی ہوتی ہیں کسی افسر یا ملازم کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ ملک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ اکثر علاقوں میں بارہ سے اٹھارہ گھنٹوں تک لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اگر کسی سرکاری دفترکا ایک اے سی بند کیاجائے تو پورے گاﺅں کی روشنی کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ سرکاری محکموں کے بجٹ میں اخراجات کی مد میں بجلی، گیس اور فیول کے پیسے بھی آتے ہیں مگر بجلی یا گیس کا بل باقاعدگی سے ادا کرنے کی روایت کسی محکمے میں نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا میں پانی سے پانچ روپے فی یونٹ بجلی پیداکرنے کی لاگت آتی ہے وہی بجلی نیشنل گرڈ سے ہمیں بائیس روپے یونٹ کے حساب سے ملتی ہے جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سرکاری ادارے مفت کا مال سمجھ کر بے تحاشا بجلی استعمال کرتے ہیں۔سرکاری دفتروں میں چائے اور کھانا بھی بجلی کے ہیٹروں پرپکایاجاتا ہے اور اس کا بوجھ بجلی قیمتوں میں آئے روز اضافے کی صورت میں عام صارفین پر پڑتا ہے۔ حکومت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے خسارے سے تنگ آکر ان کی نجکاری کرنا چاہتی ہے لیکن کوئی بھی نجی سرمایہ کار ان سفید ہاتھیوں کو خریدنے پر آمادہ نہیں۔بجلی، گیس، ریلوے، پی آئی اے ، سٹیل مل سمیت سرکاری سطح پر چلنے والا کوئی بھی پیداواری ادارہ منافع میں نہیں چل رہا۔ جو منافع ملتا ہے وہ ملازمین کی فوج ظفر موج کی تنخواہوں ، مراعات اور پنشن پرخرچ ہوتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سرکار کے زیر انتظام چلنے والے پیداواری یونٹوں کونجی شعبے کے حوالے کیا جائے تاکہ انہیں خسارے سے نکال کر منافع بخش ادارہ بنایاجاسکے اور عوام کو فوری اور معیاری سہولیات میسر آسکیں۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ شہریوں کو بجلی کی سپلائی یقینی بنائی جائے‘ اب جب کہ گرمی میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا ہے اس غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے ہی نہیں بلکہ وولٹیج کی کمی نے بھی شہریوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں ‘بالخصوص ضعیف العمر افراد اور کم سن بچوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے ‘ اس لئے متعلقہ حکام کو اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ انہیں شدید گرمی میں پریشان کن صورتحال سے نجات مل سکے ۔