بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا حالیہ دورہ¿ امریکہ (اکیس سے تیئس جون) کے دوران دیگر شعبوں کے علاو¿ہ دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں‘ جن کا تعلق دفاع سے بھی ہے اور اِس بات پر پاکستان کی تشویش جائز ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے وزیراعظم کا دورہ¿ امریکہ ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جبکہ پاکستان بیک وقت تین بحرانوں (سیاسی‘ آئینی اور معاشی) کا سامنا کر رہا ہے اور بھارت امریکہ کے ساتھ نئی شراکت قائم کرنے‘ عالمی سیاست میں اپنے قدم جمانے اور جغرافیائی و اقتصادی مفادات کے اصولوں پر چلنے والی دنیا میں آگے بڑھ رہا ہے۔ خاص طور پر سال دوہزارچھ کے بعد سے بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں غیرمعمولی گرمجوشی دیکھنے میں آ رہی ہے اور یہ تعلقات صرف پاکستان کے نکتہ¿ نظر ہی سے نہیں بلکہ کئی عالمی تجزیہ کاروں کی جانب سے بھی بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں کیونکہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں اور اِس حوالے سے امریکی صدر نے بھی اپنے استقبالیہ کلمات میں اشارتاً بات کی ہے۔ امریکہ کے ساتھ بھارت اسٹریٹجک ہم آہنگی کے علاو¿ہ تجارت‘ سائنس و ٹیکنالوجی‘ دفاع اور مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے شعبوں میں تعاون بڑھا رہا ہے لیکن یہ مکمل ہم آہنگی (شراکت داری) نہیں ہے‘ جو صرف امریکہ کی خواہش کی وجہ سے ہے کہ وہ ایشیا میں (چین کے مقابلے میں) جغرافیائی سیاسی توازن پیدا کرنا چاہتا ہے اور اِسی وجہ سے بھارت کو مضبوط کر رہا ہے۔ بھارت اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی نمایاں خصوصیات (پہلوو¿ں) کا محور باہمی مفادات ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لئے مواقع تلاش کئے جا رہے ہیں‘ تاہم امریکہ کو اِس خام خیالی میں نہیں رہنا چاہئے کہ بھارت اُس کے احکامات اور اشاروں پر پاکستان کی طرح اندھا دھند پیروی کرے گا۔ بھارت عالمی طاقت (سپر پاور) بننے کا عزم رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُسے اقوام متحدہ میں ’ویٹو‘ کا اختیار ملے اور ظاہر ہے کہ اُس کا یہ ہدف امریکی مدد و حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن بھارت امریکہ کا ’اتحادی ہوتے ہوئے بھی کنفیڈریٹ‘ نہیں بننا چاہتا اور اپنی اِس آزادی کو قربان کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتا۔ اِسی طرح بھارت ہر معاملے میں امریکہ کی پیروی نہیں کرتا اور نہ ہی اِسے ضروری سمجھتا ہے۔ بھارت اپنے آپ کو ’قابل فخر‘ اور آزاد ملک کے طور پر دیکھتا ہے جو اپنے مستقبل (خارجہ پالیسی کے فیصلوں اور اہداف) کو کسی دوسرے ملک سے منسلک (وابستہ) نہیں کرنا چاہتا اور اسی وجہ سے امریکہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات بنیادی طور پر ”محدود اور صرف لین دین ہی پر منحصر“ ہیں۔ چین کے مقابلے میں بھارت کو طاقت بنا کر استعمال کرنے کی امریکی خواہش اِس قدر شدید ہے کہ امریکہ بھارت سے کچھ مانگے بغیر اور کوئی بھی شرط عائد کئے بغیر عنایات کی بارش کر رہا ہے۔ امریکہ کی یہ خواہش درحقیقت خطے کے مزاج اور جغرافیئے سے اِس کی محدود سمجھ بوجھ کی عکاسی کر رہی ہے اور اِسی وجہ سے عراق و افغانستان کے محاذوں پر بھی امریکہ سے غلطیاں سرزد ہوئیں بھارت چین کا کچھ بگاڑ سکتا ہے یا نہیں لیکن وہ چین کے ساتھ جغرافیہ سے بچ نہیں سکتا کیونکہ وہ چین کا ہمسایہ ہے اور ہمسائے سے دشمنی کی بنیاد پر کسی دور دراز ملک سے دوستی بھارت تو کیا کسی بھی دوسرے ملک کے مفاد میں نہیں ہو سکتی ‘ اگر چین‘ جس کی ’جی ڈی پی‘ بھارت سے چار گنا زیادہ ہے‘ واضح طور پر ایشیا پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے‘ تو امریکہ کو بیجنگ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے میں اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے بھارت کے ساتھ مختلف تعلق رکھنا پڑ سکتا ہے۔ ایک سادہ حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت امریکہ تعلقات و مفادات یکجا تو سکتے ہیں لیکن یہ ہم آہنگ نہیں ہوسکتے ہیں‘بھارت سفارتی تعاون اقتصادی اور دفاعی تعاون کے شعبوں میں امریکہ کےساتھ مل کر بہت کچھ کرنے کو تیار ہے لیکن امریکہ کی خواہش ایک ہی ہے کہ چین کے خلاف بھارت کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائے اور اِسی وجہ سے وہ دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے بھارت میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بالخصوص کشمیریوں سے امتیازی سلوک کے بارے میں دانستہ طور پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ امریکی فیصلہ ساز جانتے ہیں کہ بھارت روس کے ساتھ اپنے تعلقات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا ‘ بھارت امریکہ اور امریکہ بھارت تعلقات کے مختلف پہلوو¿ں اور بڑھتی ہوئی گرمجوشی کا دیگر قوموں کو مطالعہ کرتے ہوئے ماضی کے اسباق پیش نظر رکھنے چا ہئیں کہ عارضی مفادات پر قومی مفادات کی بنیاد رکھنے سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے بلکہ اِس سے پیدا ہونےوالے تنازعات کی وجہ سے ممالک کے درمیان جنگوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔