پشاور کہانی : چہل قدمی

تندرستی ہزار نعمت ہے۔ طب کے نکتہ¿ نظر سے ہفتے کے زیادہ تر دنوں میں یعنی ہر دن کم سے کم ’تیس منٹ‘ یا اِس سے زیادہ ’چہل قدمی‘ جسمانی اعضا کی فعالیت‘ خون کی گردش‘ جسم سے فاسد مادوں کے اخراج‘ بھوک پیاس کے احساس کو بڑھانے‘ نظام ہضم کی درستگی‘ ذہنی تناو¿ اور دباو¿ (ڈپریشن) سے نجات الغرض مجموعی صحت کی بہتری یا اِسے برقرار رکھنے کا ایک بہترین طریقہ (ذریعہ) ہے‘ جسے ’تیر بہ ہدف نسخہ‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ مصروفیات کی صورت ہر دن کم سے کم نصف گھنٹہ ’واک‘ اگر کسی جانے انجانے شخص کے ہمراہ کی جائے تو یہ ’آسان کسرت (ورزش)‘ ایک خوشگوار اور حیرت انگیز اثرات رکھنے والی سماجی سرگرمی میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے کیونکہ اِس (چلتے چلتے) مختلف موضوعات پر تبادلہ¿ خیال سے بہت کچھ سیکھا اور گردوپیش میں مشاہدہ کے بارے میں ہم عصروں کی رائے معلوم کی جا سکتی ہے۔ پیدل چلنے کی کم سے کم حد ’4 سے 6 ہزار قدم‘ مقرر ہے جبکہ معالجین تجویز کرتے ہیں کہ تیز اور ہلکے قدموں سے ہر روز ’10 ہزار‘ قدم چلنے والے نسبتاً زیادہ صحت مند زندگی بسر کرتے ہیں۔ پیدل چلنے کے لئے بہترین مقام سبزہ زار‘ باغ یا ایسی ہموار سطحیں ہوتی ہیں جو پُرپیچ اور اُونچی نیچی ہوں‘ جہاں علی الصبح تازہ ہوا میں گہرے سانس لینے سے حاصل ہونے والے خوشگوار احساس کا نعم البدل ممکن نہیں۔ ’اہل پشاور‘ کے لئے پیدل چلنے کے تلخ و شریں تجربات پر شہری زندگی کے کچھ اِس انداز سے مسائل حاوی ہو چکے ہیں کہ ہر قدم ایک الگ کوفت سے واسطہ پڑتا ہے اور یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ صبح ہو یا شام‘ ماسوائے چند ایک علاقوں کے‘ خواتین کے لئے پیدل چلنے کے مواقع انتہائی محدود اور پُرخطر ہیں۔ایک ایسا شخص (مرد یا عورت) جو اپنے گھر اور کام کاج کی جگہ (دفتر یا دکان) کے درمیان روزانہ تیس سے چالیس منٹ پیدل چلتا ہے اُسے تندرست رہنے کے لئے کسی اضافی مشقت کی ضرورت نہیں رہتی لیکن اِس دوران وہ جن حقائق کا براہ راست مشاہدہ کرتا ہے اُنہیں باآسانی خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔ ’صبح کی سیر کا پہلا نظارہ‘ جا بجا ڈھیروں ڈھیر گندگی (کوڑا کرکٹ) نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ کوڑاکرکٹ سے اُٹھنے والا تعفن اور مکھیاں مچھر ہر راہ گیر کا پیچھا کرتی ہیں! پشاور کی کل 92 یونین کونسلوں میں سے بمشکل نصف میں گندگی اُٹھانے کا باقاعدہ انتظام موجود ہے جس میں اندرون شہر کے گنجان آباد علاقے بھی شامل ہیں لیکن ہر صبح گلی کوچوں میں گھر گھر سے گندگی اکٹھا کرنے اور جھاڑو لگانے کے چند گھنٹے بعد صفائی برقرار نہیں رہتی اور مقررہ مقامات اور مقررہ اوقات کے علاو¿ہ کوڑا کرکٹ پھینکنے کا سلسلہ دن کے آغاز سے رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ ایک ایسی صورتحال جس میں گندگی پھینکنے‘ گندگی اُٹھانے اور گندگی تلف کرنے جیسے تینوں طریق و فریق مربوط و منظم نہیں اور یہی وجہ ہے کہ شہری زندگی کا نظارہ ”گندگی و تعفن“ کی وجہ سے ناخوشگوار تجربہ ثابت ہوتا ہے۔صبح کا دوسرا نظارہ بے ہنگم ٹریفک کا نظام ہے جو شہر کے جاگنے کے ساتھ ہی گرد اُڑاتے فعال ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پشاور کی سڑکوں پر 1960 اور 1970ءکی دہائیوں میں ساختہ بسیں فراٹے بھرتی نظر آتی ہیں‘ جن کے اِنجنوں سے اُگلتا ہوا کثیف دھواں مٹی اور گردوغبار کے بادلوں کو یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں لئے پھرتا ہے اور اِس آلودگی بھری ہوا میں سانس لینا‘ کسی بھی طرح صحت مند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ توجہ طلب ہے کہ پیدل چلنے کا رجحان دن بہ دن کم ہو رہا ہے، چہل قدمی کسی بھی طرح مفلسی کی علامت نہیں البتہ بچت کا ذریعہ ہے اور اِس بامقصد سرگرمی کے فرد‘ افراد اور سماج کے لئے متعدد فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن سبھی محرکات کی اِصلاح ضروری ہے جو پیدل چلنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ چہل قدمی کے لئے مناسب ماحول فراہم کرنے کے لئے پشاور کے باغات پر توجہ دینا ضروری ہے۔چہل قدمی کی وجہ سے ٹریفک کے دباو¿ میں نمایاں کمی اضافی ثمر اور باآسانی ممکن ہے جس سے پشاور کے ’کاربن فٹ پرنٹ (فضائی آلودگی)‘ میں خاطرخواہ کمی آ سکتی ہے اور جس کا نتیجہ صاف آب و ہوا کی صورت برآمد ہو سکتا ہے۔ پشاور جو کبھی پھولوں کا شہر کہلاتا تھا لیکن اِس کے کچھ حصوں میں فضائی آلودگی کی شرح‘ اُس خطرناک سطح کو بھی عبور کر چکی ہے جو انسانی صحت کے لئے خطرناک و برداشت کی آخری حد ہے۔ ضروری ہے کہ کم فاصلے کے لئے گاڑی یا کسی سواری کا انتخاب کرنے کی بجائے پیدل چلنے کا انتخاب کیا جائے‘ اِسی میں صحت کی صورت انفرادی اور پشاور کے مسائل پر غور کرنے جیسی اجتماعی بھلائی پوشیدہ ہے۔