امریکہ بھارت ہرزہ سرائی

بھارتی وزیر نریندر مودی جس کے انسانی حقوق کے بد ترین ریکارڈ کوبھی امریکہ نے نظر انداز کرتے ہوئے گلے لگایا ہے ،یقینا عالمی حقوق کے نام نہاد چیمپئن امریکہ کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ ایک طرف تو وہ پوری دنیا کو انسانی حقوق کی نصیحتیں کرتا ہے تو دوسری طرف مودی جیسے متعصب رہنما کی مہمان داری میں بھی مصروف ہے ۔ اس سب کے دوران وہ مشترکہ اعلامیہ گمراہ کن ہے جو امریکی صدر اور مودی کی ملاقات کے بعد جاری کیاگیا۔یہ بہت اچھا ہوا کہ پاکستان نے امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیہ پر سخت ردعمل دیا اور کہا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے مخصوص حوالہ کو غیر ضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن سمجھتے ہیں۔خیال رہے کہ ان دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امریکا کے دورے پر ہیں اور دنوں ممالک کی جانب سے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان پر سرحد پار دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے پر زور دیا گیا ہے۔یہ وہ گمراہ کن مطالبات ہیں جو امریکی اور بھارتی رہنماﺅں کی ملاقاتوںمیں اٹھانا معمول کی بات بن گئی ہے ۔ بھارت جو اقلیتوں کیلئے دوزخ ہے اور جہاں اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے ۔کس طرح دوسرے ممالک پر تنقید کرسکتا ہے۔ میڈیا بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کی ترجمان نے بجا طور پر کہا کہ یہ حوالہ سفارتی اصولوں کے منافی ہے اور اس کی سیاسی اہمیت نہیں ہے،حیران ہیں کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف قریبی تعاون کے باوجود اسے شامل کیا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں، پاکستان کے عوام اس جنگ میں اصل ہیرو ہیں، عالمی برادری نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو بار بار تسلیم بھی کیا۔جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ ہے تو دہشت گردی کو مشترکہ اور تعاون پر مبنی اقدامات کے ذریعے شکست دی جا سکتی ہے، امریکہ بھارت صدور کی ہرزہ سرائی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بین الاقوامی مفاد میں ہر گز نہیں ہیں۔ اس یک طرفہ بیان سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ تعاون پر مبنی جذبے کی قدر نہیں کی گئی اور جغرافیائی سیاسی مفادات کو ترجیح دی گئی ہے۔اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں وحشیانہ جبر اور ناروا سلوک سے توجہ ہٹانے کیلئے دہشت گردی کو استعمال کرتاہے۔ ایسے میں پاکستان اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ستم ظریفی ہے تویہ ہے کہ مشترکہ بیان میں خطے میں کشیدگی کی وجہ دورکرنے اور جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کا نوٹس ہی نہیں لیاگیا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ پاکستان بھارت کو جدید فوجی ٹیکنالوجیز کی منصوبہ بندی کے حوالے سے امریکی اقدامات پر آواز اٹھائے اور وزارت خارجہ نے اس حوالے سے جو گہری تشویش ظاہر کی ہے وہ بالکل بجا ہے کیونکہ ایسے اقدامات خطے میں فوجی عدم توازن کو بڑھا رہے ہیں اور سٹریٹجک استحکام کو نقصان پہنچا رہے ہیں ساتھ ہی ایسے اقدامات جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے مقصد کے حصول کی کوششوں کیلئے خطرہ ہیں۔ایسے حالات میں پاکستان کا چین کے ساتھ سٹریٹیجک تعلق اور بھی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کیونکہ امریکہ بھات گٹھ جوڑ پاکستان اور چین دونوں کے خلاف ہے جس کا جواب بھی دونوں ممالک مشترکہ طور پر دے سکتے ہیں۔پاکستان اور چین جس طرح ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں وہ ایک بہترین مثال ہے کہ کس طرح دو ممالک عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے قریبی سٹریٹجک تعلقات استوار کر سکتے ہیں اس وقت چین ہر لحاظ سے مغربی ممالک پر حاوی ہے خاص طور پر معاشی ترقی میں اس نے جو مثالیں قائم کی ہیں وہ پاکستان کے لئے بھی قابل تقلید ہیں۔