اَقوام متحدہ نے ”خبردار“ کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کر رہے ہیں‘ جو ماحول دوست نہیں ہیں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ”یورپ‘ امریکہ اور جاپان سے ترقی پذیر دنیا کو برآمد کی جانے والی لاکھوں استعمال شدہ کاریں‘ وینز اور منی بسوں کے اِنجن تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے ناقص المعیار ہوتے ہیں‘ جو فضائی آلودگی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات زیادہ شدت اختیار کر رہے ہیں۔ ’یو این اِی پی‘ کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال دوہزار پندرہ سے دوہزاراٹھارہ کے درمیان دنیا بھر میں ایک کروڑ چالیس لاکھ (چودہ ملین) استعمال شدہ لائٹ ڈیوٹی گاڑیاں برآمد کی گئیں جو 80فیصد کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک اور نصف سے زیادہ افریقی ممالک میں گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے تشویش کا اظہار ایک تفصیلی رپورٹ کی صورت جاری کیا گیا ہے جس کا عنوان ”استعمال شدہ گاڑیاں اور ماحولیات: اِستعمال شدہ ہلکی گاڑیوں کا عالمی جائزہ: ترسیل‘ برآمدی پیمانہ اور قواعد (ریگولیشنز)“ ہے‘ فضائی آلودگی کم کرنے کیلئے ’اقوام متحدہ‘ نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ دیگر اقدامات کے ساتھ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے متعلق اپنی حکمت عملیوں پر نظرثانی کریں اور اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے والے ممالک میں فضائی آلودگی کی سطح کم رہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی عالمی گاڑیوں کا بیڑا فضائی آلودگی اور آب و ہوا کی تبدیلی میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے عالمی سطح پر‘ نقل و حمل کا شعبہ توانائی سے متعلق گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریباً ایک چوتھائی ہے یعنی دنیا میں پیدا ہونے والی مجموعی فضائی آلودگی کا چوتھا حصہ گاڑیوں کی وجہ سے ہے خاص طور پر ایسی گاڑیوں کی وجہ سے جن کے انجن سے ماحول دشمن باریک ذرات (پی ایم 2.5) اور نائٹروجن آکسائڈ (این اوایکس) خارج ہوتے ہیں اور یہ شہری فضائی آلودگی کی بڑی وجوہات ہیں۔یو این ای پی کے مطابق عالمی اور مقامی فضائی معیار اور آب و ہوا کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے عالمی گاڑیوں کے بیڑے کی صفائی ترجیح ہونی چاہئے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ترقی یافتہ ممالک نے ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان کو استعمال شدہ گاڑیاں برآمد کرنے کا آغاز کر رکاھ ہے چونکہ یہ کاروبار (تجارت) بڑی حد تک غیر منظم ہے‘ اس لئے آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں بھی بڑی تعداد میں برآمد ہو رہی ہیں۔ اگر عالمی سطح پر گاڑیوں کی برآمدات سے متعلق قواعد و معیارات اور ضابطوں پر نظرثانی کی جائے اور اِن میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کیا جائے تو ایک خاص مدت سے پرانی اور آلودگی پھیلانے والی گاڑیاں جو ماحولیاتی تحفظ کے نکتہئ نظر سے ’غیر محفوظ‘ ہیں تو ایسی گاڑیاں کسی بھی ملک کو برآمد نہیں ہونی چا ہئیں اور نہ ہی ممالک اپنے ہاں نجی شعبے کو ایسی گاڑیوں کی درآمدکی اجازت دیں۔ اصولاً ترقی یافتہ ممالک کو ایسی گاڑیاں برآمد کرنے پر پابندی عائد کرنی چاہئے جو اُن کے ہاں اِس لئے ناقابل استعمال قرار دے دی جاتی ہیں کیونکہ اُن کی وجہ سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ دنیا ”تحفظ ِماحول سے متعلق ایک ’مشترک و مربوط لائحہ عمل‘ تشکیل دے۔اَقوام متحدہ کے ذیلی اِدارے نے مذکورہ رپورٹ میں ”146 ممالک“ کا تفصیلی تجزیئے و جائزے پر مبنی جو حقائق پیش کئے ہیں اُس سے پاکستان جیسے ممالک کو زیادہ غور کرنا چاہئے جو معاشی بحرانوں سے گزر رہے ہیں اور اگر فضائی آلودگی میں اضافے کی وجہ سے موسمیاتی منفی اثرات میں اضافہ ہوتا ہے تو اِس سے ملکی معیشت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ توجہ طلب ہے کہ دنیا کے دو تہائی ممالک (بشمول پاکستان) میں اِستعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو ریگولیٹ کرنے کیلئے پالیسیاں موجود تو ہیں لیکن اُن پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا جاتا جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ صرف درآمد شدہ گاڑیاں ہی نہیں بلکہ دیگر ہر قسم کی گاڑیوں کی تکنیکی جانچ پڑتال پر زیادہ سختی سے عمل درآمد اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو کنٹرول کرنے کیلئے نظرثانی شدہ اقدامات کا نفاذ ہونا چاہئے۔ خاص طور پر گاڑیوں کی ساختہ عمر اور اُن کے انجن سے اخراج ہونے والی گیسوں کے معیارات پر گہری نظر رکھنی چاہئے۔ دنیا میں ایسی گاڑیوں کا اِستعمال بڑھ رہا ہے جو ایک سے زیادہ ایندھن سے چلتی ہیں‘ اِنہیں ’ہائبرڈ‘ کہا جاتا ہے۔ کم دام ’ہائبرڈ‘ اُور ’الیکٹرک گاڑیوں‘ سمیت اعلیٰ معیار کی استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ دنیا میں استعمال شدہ گاڑیوں کی سب سے زیادہ تعداد (چالیس فیصد) افریقی ممالک کو برآمد ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے گاڑیوں کی درآمدات کا جائزہ اگر ماحولیاتی نکتہئ نظر سے لیا جائے اور تحفظ ماحول کو پیش نظر رکھا جائے تو عالمی سطح فضائی آلودگی میں اضافے میں کمی لائی جا سکتی ہے جو گرمی کی لہر کا باعث بھی ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے توجہ دلائی گئی ہے کہ ناقص المعیار استعمال شدہ گاڑیاں کی وجہ سے صرف فضائی آلودگی ہی میں اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ ٹریفک حادثات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹ میں بہت سے ایسے ممالک کی مثالیں دی گئی ہیں جہاں استعمال شدہ گاڑیوں کے درآمدی قوانین موجود تو ہیں لیکن اُن پر خاطرخواہ سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا اُور تکنیکی جانچ کے بغیر ایسی گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں اِسکے برعکس جن ممالک میں استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں سے متعلق قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے وہاں نہ صرف فضائی آلودگی کی صورتحال بہتر ہے بلکہ ٹریفک حادثات کی وجہ سے بھی یہ ممالک نسبتاً محفوظ قرار دیئے گئے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ’یو این ای پی‘ اقوام متحدہ کے روڈ سیفٹی ٹرسٹ فنڈ اور تحفظ ماحول کی دیگر حکمت عملیوں سے جمع ہونے والے مالی وسائل کی مدد سے‘ کم سے کم استعمال شدہ گاڑیوں کے ’عالمی معیارات‘ متعارف کرانے کی کوشش کر رہا ہے اقوام متحدہ کی کوششوں سے مراکش‘ الجیریا‘ آئیوری کوسٹ‘ گھانا اور ماریشس سمیت متعدد افریقی ممالک پہلے ہی کم از کم درآمدی گاڑیوں سے متعلق عالمی معیارات کی توثیق اُور اُن کے نافذ میں پہل کر چکے ہیں جبکہ دیگر براعظموں کے ممالک نے بھی اقوام متحدہ کی اِن کوششوں کا حصہ بننے میں دلچسپی ظاہر کی ہے وقت ہے کہ قومی فیصلہ ساز انفرادی حیثیت میں خریدار ’استعمال شدہ گاڑیوں کا انتخاب کرتے ہوئے‘ ماحول دوستی کو بھی پیش نظر رکھیں کیونکہ ماحولیاتی تحفظ کو خاطرخواہ اہمیت دینا صرف آج ہی کی ضرورت نہیں بلکہ فضائی آلودگی میں کمی آنیوالی نسلوں کیلئے بھی یکساں اہم ہے۔