خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر کے عوام آج کل دوہرے عذاب میں مبتلا ہیں کہیں دن بھر سورج آگ برساتا ہے تو کہیں رات کو شدید حبس کے باعث لوگ پسینے میں شرابور ہیں‘بجلی کی آنکھ مچولی نے گرمی کے ستائے عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز کر دیا ہے اور لوگ موسم گرما میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر دہائیاں دے رہے ہیں۔وزارت توانائی کے حکام کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار 765میگاواٹ ہے‘ اس وقت بجلی کی مجموعی پیداوار 20 ہزار 235 میگاواٹ ہے جبکہ بجلی کی طلب 27ہزار میگا واٹ ہے۔گرمی میں اضافے کے ساتھ ہی پاکستان میں بجلی کی آنکھ مچولی معمول کی بات ہے تاہم اس بار جون کے آخری عشرے میں گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے‘ہیٹ ویو کے دوران درجہ حرارت معمول سے چھ ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیاہے ایک طرف سورج سوا نیزے پر آگیا ہے تو دوسری طرف شہری علاقوں میں چار سے چھ گھنٹے اور دیہی علاقوں میں بارہ سے اٹھارہ گھنٹوں تک بجلی غائب رہتی ہے۔طویل لوڈ شیڈنگ کے ساتھ کم وولٹیج نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ بجلی آنے کے باوجود نہ اے سی، فریج، فریزر، پانی کے موٹر اور پنکھے چلتے ہیں نہ ہی لائٹیں جلتی ہیں۔بجلی کی بندش پر صارفین پر غم و غصے کا مختلف انداز میں اظہار کر رہے ہیں کہیں سڑکیں بلاک کرکے احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف صارفین سوشل میڈیا پر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔سیکرٹری توانائی کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ صرف دو گھنٹے ہے‘اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ اگست تک جاری رہے گا اگر ہمیں سستے ایندھن پر بجلی ملے تو اس لوڈ شیڈنگ کو ایک گھنٹے پر بھی لایا جا سکتا ہے‘ جن علاقوں میں بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہیں کی جا رہی۔ وہاں بجلی جانے کا دورانیہ چھ سے آٹھ گھنٹے بھی ہے ان میں خیبر پختونخوا اورسندھ کے بعض علاقے شامل ہیں‘پاکستان میں مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت 23 ہزار 500 میگاواٹ ہے۔بارشوں کے موسم میں ڈیموں اور جھیلوں میں پانی بھرتا ہے جس سے پانی کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں بہتری آتی ہے‘حکام نے یہ موقف اپنایا ہے کہ گرمی میں ایئر کنڈیشنز زیادہ چلانے کے باعث بجلی کی طلب میں یکدم اضافہ ہوتا ہے۔سسٹم پر لوڈ پڑنیکی وجہ سے اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا شیڈول مرتب کیا جاتا ہے۔آج سے چھ سات سال پہلے حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ کیاگیا تھا کہ انہوں نے قومی ضروریات سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کا ہدف حاصل کرلیا ہے۔ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو۔مگر بجلی کا ڈسٹری بیوشن سسٹم ایک مقررہ حد سے زیادہ لوڈ نہیں اٹھا سکتا۔اگر ہمارے پاس بجلی کی پیداوار تیس ہزار میگاواٹ بھی ہوئی تو ڈسٹری بیوشن سسٹم بیس ہزار کا بوجھ ہی اٹھا سکتا ہے‘ بنیادی ضرورت ڈسٹری بیوشن لائنوں کو بہتر بنانے کی ہے‘لائن لاسز اور بجلی کی چوری بھی ایک لاینحل مسئلہ ہے جس کا حکومت اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے اب تک کوئی حل تلاش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی‘جولوگ کنڈے لگا کر مفت بجلی استعمال کرتے ہیں ان سے مفت بجلی استعمال کرنے کی عیاشی واپس لے لیں؛ نادہندہ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں، محکموں اور دفاتر کی بجلی منقطع کردیں۔ تو شاید چھ سے اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے‘کچھ لوگوں نے بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر سوشل میڈیا میں دلچسپ تبصرے بھی کئے ہیں‘ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ بجلی غائب ہونے کا رونا رونے کے بجائے بار بار بجلی آنے پر خوشی کا اظہار کرنا شروع کریں تو ہماری زندگی آسان ہوسکتی ہے‘ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے فوائد کا بھی سوچنا چاہئے‘ساری رات بجلی نہ ہونے سے انسان کو شب بیداری کی عادت ہوتی ہے۔ جسم اگر پسینے سے شرابور ہوجائے تو جسم میں موجود اضافی چربی ختم ہوجاتی ہے‘ جو صحت مند زندگی کیلئے ضروری ہے۔