پشاور کہانی : مصنوعی مہنگائی

عیدالاضحی کے موقع پر صوبائی دارالحکومت پشاور کی مقامی مارکیٹ میں سبزی‘ دال‘ زندہ مرغی و مرغی کے گوشت‘ پھل (فروٹ)‘ کوکنگ آئل (خوردنی تیل)‘ گھی‘ چینی‘ مشروبات اُور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ اِس حقیقت کا عکاس ہے کہ ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی خودساختہ مہنگائی کا سلسلہ جاری ہے۔ پشاور کی مختلف خوردہ (تھوک) اور پرچون (ریٹیل) مارکیٹوں میں کئے گئے قیمتوں کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر سب سے زیادہ اضافہ ’ادرک‘ کی قیمت میں ہوا ہے جو عید سے قبل سات سے آٹھ سو روپے فی کلوگرام تھی لیکن ادرک کی قیمت اچانک ایک ہزار روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ ناقص معیار کی ادرک 900 روپے کلوگرام فروخت ہو رہی ہے! اِسی طرح لہسن کی قیمت جو گزشتہ ہفتے کے ساڑھے تین سو روپے فی کلو گرام تھی بڑھ کر پانچ سو روپے ہو چکی ہے جب ناقص معیار کا لہسن چارسو روپے فی کلوگرام فروخت ہورہا ہے۔ مٹر کی قیمت دوسواسی روپے فی کلو سے بڑھ کر ساڑھے تین سو روپے‘ اروی دوسو روپے‘ توری ستر روپے کلو‘ کریلا ساٹھ روپے اور پیاز ساٹھ سے ستر روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ ہری مرچ کی قیمت دو روپے کلو‘ ٹماٹر ستر سے اَسی روپے فی کلو‘ بینگن اَسی روپے کلو‘ گوبھی سو روپے کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ پھول گوبھی سو سے ایک سو بیس روپے فی کلو‘ شملہ مرچ سو سے ایک سو بیس روپے فی کلو‘ ٹینڈا سو روپے فی کلو‘ سرخ رنگ کے آلو اَسی سے نوے روپے فی کلو جبکہ سفید رنگ کے آلو پچاس روپے فی کلو میں فروخت ہو رہے ہیں۔ مقامی مارکیٹ میں خوردنی تیل اور گھی کی قیمتوں میں اضافہ کا تناسب منطق سے بالاتر ہے جبکہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی تھی اُور توقع تھی کہ عیدالاضحی کے موقع پر خوردنی تیل جو سستا ہوگا لیکن عید سے ایک ہفتہ قبل تک مختلف معیار کے خوردنی تیل جو ساڑھے چار سو سے پانچ سو روپے فی کلوگرام فروخت ہو رہے تھے اچانک چھ سو اُور چھ سو تیس روپے تک جا پہنچے ہیں! اِسی طرح ایک کلوگرام زندہ مرغی کی قیمت ساڑھے چارسو روپے‘ ہڈی کے بغیر گائے کا گوشت نو سو روپے اور ہڈی والا گوشت آٹھ سو روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ مقامی مارکیٹ میں دالوں اور اناج کی قیمتوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی لیکن دس بیس روپے ہر جنس کی قیمت میں اضافہ اِس بات کی دلیل ہے کہ مہنگائی کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ اچھے معیار کا چاول تین سو بیس سے تین سو تیس روپے فی کلوگرام‘ کم معیار کا چاول دوسو اَسی روپے سے تین سو روپے‘ ٹوٹا چاول معیار کے لحاظ سے بالترتیب ایک سو ساٹھ سے دوسو روپے فی کلو دستیاب ہے۔ دال ماش چارسو بیس روپے فی کلو‘ دال مسور تین سو بیس روپے‘ مونگ دوسوچالیس روپے فی کلو‘ دال چنا دوسواَسی روپے‘ سفید لوبیا دوسوچالیس روپے کلو‘ بڑے سائز کا سفید چنا تین سو اَسی روپے‘ چھوٹے سائز کا سفید چنا ڈھائی سو روپے فی کلو سے بڑھ کر دو سو اَسی روپے فی کلو ہے۔ چینی کی قیمت میں ایک سو تیس روپے فی کلوگرام ہو گئی ہے جو چند روز پہلے ایک سو پندرہ روپے تھی۔ آٹے کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹوں میں اَسی کلوگرام آٹے کا تھیلا ساڑھے گیارہ ہزار روپے جبکہ بیس کلو آٹے کا تھیلا چھبیس سے اٹھائیس سو روپے میں دستیاب ہے۔ ایک درجن فارمی انڈے دو سو اَسی روپے‘ تازہ دودھ ایک سو اَسی روپے سے بڑھ کر دوسو اُور دوسو بیس روپے فی لیٹر جبکہ دہی ایک سو اَسی روپے سے بڑھ کر دوسوبیس روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ پھل‘ کی قیمتیں مسلسل بلند ہیں۔ سیب جو تین سو چار سو روپے تھا اب پانچ سو روپے فی کلو کے قریب پہنچ چکا ہے۔ بڑے سائز کا کیلا دو روپے اور چھوٹے سائز کا کیلا ڈیڑھ سو روپے فی درجن‘ آم ڈیڑھ سو سے تین سو روپے فی کلو‘ خربوزے سو روپے فی کلو‘ تربوز چالیس سے پچاس روپے فی کلو‘ آڑو سو سے ڈیڑھ سو روپے فی کلو میں دستیاب ہیں۔ کالی چائے کی پتی چودہ سے پندرہ سو روپے فی کلو دستیاب ہے۔ پیک شدہ اور پاو¿ڈر دودھ کے ساتھ بچوں کے دودھ کی قیمتیں بھی زیادہ ہوئی ہیں۔ مختلف برانڈز کے پاو¿ڈر دودھ‘ ڈائپرز اُور روزمرہ استعمال کی اشیائے ضروریہ جن میں صابن‘ ٹوتھ پیسٹ‘ زندگی بچانے والی ادویات و دیگر ادویات شامل ہیں کی قیمتوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔مہنگائی سے زیادہ ’خود ساختہ مہنگائی‘ ستم ڈھا رہی ہے۔ چار سو پھیلتے پشاور میں قیمتوں کو ضبط میں رکھنے کیلئے انتظامیہ متحرک تو ہے تاہم یہ کام اب آسان نہیں لگتا۔ اِس صورتحال کا صوبائی حکومت کو سختی و سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے کہ ’سرکاری نرخنامہ‘ جاری کرتے ہوئے کم سے کم ایک ماہ کے نرخوں پر نظرثانی کی جائے اور قیمتوں میں آئے روز اضافے کے رجحان کو روکا جائے۔اس کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کو قیمتوں کا تعین کرتے ہوئے عوام کے مفاد کو مدنظر رکھنا چاہئے اور تاجروں و دکانداروں کو کم سے کم ایک ماہ قیمتوں کو مستقل رکھنے کا پابند بنایا جائے اور اِس میں ردوبدل کی کسی بھی صورت اجازت نہ دی جائے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عیدالاضحی کی سرکاری تعطیلات میں موثرنگرانی نہ ہونے کی وجہ سے‘ قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے جو عید الاضحی کے بعد بھی برقرار رہتا ہے ۔