گزشتہ دنوںتارکین وطن کی کشتیاں ڈوبنے کے دو واقعات سامنے آئے جن میں سے ایک میں سینکڑوں پاکستانی بھی ڈوبنے والوںمیںشامل تھے‘ جان لیوا سفر پر نکلنے والے ان تارکین وطن کا منزل جو بھی ملک تھا تاہم انہوںنے بہتر مستقبل کے سپنے دیکھ کر ہی یہ سفر شروع کیا تھا‘ عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے سے تارکین وطن کی کشتیوں کو پیش آنے والے حادثات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد موت کا شکار ہوجاتی ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سپین سمیت کئی یورپی ممالک پر الزام لگایا کہ وہ سرحد پر اپنے نسل پرستانہ طرز عمل کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ کچھ یورپی ممالک سرحد پر تارکین وطن کی ہلاکتوں کی صحیح طریقے سے تحقیقات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تارکین وطن کی ہلاکتوں کے ایک بڑے واقعے کے تقریبا ًچھ ماہ بعد جو مراکش اور سپین کی سرحدات پر پیش آیا تھا جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ان واقعات کو بین الاقوامی قانون کے تحت جرائم کے طور پر بیان کیا گیا ہے، اور دونوں ممالک کی جانب سے کی جانےوالی تحقیقات کو ناکافی قرار دیا گیا ہے۔زیادہ تر تارکین وطن ،سرحدی حکام ،انسانی سمگلروں اور سمندری نگرانوں کی غفلتوں کا شکار ہوئے ہیں‘ ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ ،پاکستانی تارکین وطن کے ساتھ بھی پیش آیا جب انکی کشتی گزشتہ ہفتے یونان کے قریب ڈوب گئی۔اس پر تقریبا ساڑھے تین سو پاکستانی سوار تھے بہت سے لاپتہ ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ جان بحق ہو گئے ہوں‘وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے قومی اسمبلی میں بتایا کہ 14جون کو کشتی ڈوبنے کے وقت ایک اندازے کے مطابق 700تارکین وطن اس پرسوار تھے‘ 12پاکستانیوں سمیت صرف 104افراد کو بچا لیا گیا اور 82 لاشیں نکالی گئیں۔اب تک جہاز پر سوار افراد کی کل تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے‘یہ ایک بروقت قدم ہے کہ حکومت نے انسانی سمگلروں کےخلاف کریک ڈاﺅن شروع کر رکھا ہے جنہوں نے ماہی گیری کی کشتی پر پاکستانیوں کےلئے سفر کا انتظام کیا، جن میں سے اکثر یورپ میں ملازمت کی تلاش میں نکلے تھے‘ اب تک، پولیس نے اس کیس کے سلسلے میں کم از کم 17 مشتبہ سمگلروں کو گرفتار کیا ہے۔یونان کے سمندری علاقے میں ڈوبنے والی کشتی میں ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے یونان کو بھی کڑی تنقید کا سامنا ہے کہ بین الاقوامی پانیوں میں ڈوبنے سے قبل اس نے تارکین وطن کو بچانے کی کوشش نہیں کی ‘ اپنے دفاع میں ایتھنز کے حکام کہتے ہیں کہ مسافروں نے کسی قسم کی مدد لینے سے انکار کیا تھا اور اٹلی جانے پر اصرار کیا تھا۔بحری جہاز کے عملے کے مشتبہ نو مصری افراد یونان میں مقدمے کی سماعت سے قبل حراست میں ہیں جن کو مجرمانہ فعل میں حصہ لینے، قتل عام اور جہاز کو تباہ کرنے کے الزامات کا سامنا ہے‘ سپین کی سرحد پر پیش آنےوالے واقعے کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے کہا کہ ہم نہ صرف اجتماعی قتل کی بات کر رہے ہیں بلکہ حکومت بھی ان ہلاکتوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں‘یہ ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب 24جون کومیلیلا کی سرحد پر تقریباً 2,000 تارکین وطن نے دھاوا بول دیا۔ سپین نے اپنی سرزمین پر کسی جانی نقصان کی تردید کی ہے‘ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ تمام واقعات یورپی سرزمین پر پیش آئے ہے جن کی تحقیقات ضروری ہے ۔