پشاور کہانی : غروب ِآفتاب 

گنجان آباد پشاور کے اندرونی علاقوں (مرکزی شہر) کی پہچان و شناخت خطرے میں ہیں۔ دوسری طرف شہر کے رہنے والوں کو جن انواع و اقسام کے مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اُن کی ’بحرانی شکل و صورت‘ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ”رہائشی و کاروباری علاقوں“ میں تمیز نہیں رہی۔ گلی کوچوں میں دکانیں اور کثیرالمنزلہ تجارتی مراکز تعمیر ہونے کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے رہائشی مکانات کے منہ مانگے دام مل رہے ہیں اور یہی سبب ہے کہ اندرون شہر سے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔پشاور کا سورج تو ابھی غروب نہیں ہوا لیکن اِس کے رہنے والوں نے منہ موڑ لیا ہے اور کم رقبے کے مکانات زیادہ قیمت کے عوض فروخت کر کے نئی بستیاں آباد کر رہے ہیں۔ وہ ہستیاں اور گھرانے جن میں پشاور آباد (مزین) تھا‘ جن سے پشاور آباد (معطر) تھا اُنہوں نے گمنامی کا انتخاب بہ امر مجبوری کیا ہے تو اِس کے ذمہ دار صرف معاشی مسائل نہیں ۔پشاور کا تعارف آج بھی ’پھولوں کے شہر‘ کے طور پر کیا جاتا ہے جبکہ اِس کے سبھی چھوٹے بڑے باغات اور سبزہ زاروں کی اراضی تجاوزات کی زد میں ہے۔ صدیوں پر محیط پشاور کے اِس سفر میں ’ماضی کی یادگاروں‘ کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے‘ جس کےلئے خصوصی اِدارہ (محکمہ¿ آثار قدیمہ اور عجائب گھر) اور سیاحت و ضلعی انتظامیہ و مقامی حکومت شامل ہیں اور اِن سبھی الگ الگ ناموں سے حکومتی اداروں کے قیام کا مقصد پشاور کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تاہم اس کے باوجود ہر دن پشاور کے نقشے سے کسی ایک عمارت کے منہدم ہونے کی صورت کسی ایک تاریخی باب کا اختتام ہو رہا ہے! اس سلسلے کو اب فوری طور پر بند کرنا ضروری ہے کیونکہ جس رفتار سے پشاور کے نقوش مٹ رہے ہیں‘ اُنہیں مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ چند دہائیوں بعد پشاور شہر کی شکل و صورت یکسر مختلف ہوگی۔ اور اس تاریخی قدیم شہر سے وابستہ بہت ساری یادگاری ماضی کا بن جائیں گی اِس کی آب و ہوا پر آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ اور اِس کے وسائل کے دیدہ دلیرانہ استحصال کی وجہ سے ’وادی¿ پشاور‘ کی شناختی علامت تبدیل ہو جائیں گی۔ اِس سلسلے کو روکنے کی ضرورت ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑی‘ باقی ماندہ نشانیوں کی حفاظت پر اِتفاق رائے سامنے آیا ہے۔ ’پشاور شہر کے 2 معروف خاندانوں (سیٹھی اور خواجگان) کے نمائندوں نے تنظیم سازی کے ذریعے ضلعی انتظامیہ‘ مقامی و صوبائی حکومت‘ پشاور سے قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ اراکین و دیگر بااثر افراد سے بالمشافہ اور بذریعہ سوشل میڈیا رابطے کا فیصلہ کیا ہے ۔اِس اتفاق میں برکت کے وسیع (لامحدود) امکانات موجود ہیں۔ یہ پہلو بھی لائق توجہ ہے کہ پشاور صرف مقامی لوگوں کے ’قابل فخر ورثہ‘ اور ’اثاثہ‘ نہیں بلکہ پشاوری دنیا کے ہر ملک میں آباد ہیں اور پھر پاکستان کا وہ کونسا بڑا شہر ہو گا جہاں ’پیشوری‘ آباد نہ ہوں۔ ’ستائیس جون دوہزارتیئس‘ کے روز شروع ہونے والی مجوزہ ’تحفظ ِپشاور تحریک (ٹی پی ٹی)‘ کے دور رس نتائج و اثرات پہلا قدم اُٹھاتے ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِس میں صرف سیٹھی و خواجگان ہی نہیں بلکہ پشاور کی دیگربرادریوںکو بھی’شریک ِسفر‘ کیا جائے بالخصوص اُس نوجوان نسل کو پشاور شناس بنایا جائے جس کے ہاتھ میں ’سوشل میڈیا‘ کے ہتھیار ہیں اور جو سماجی رابطہ کاری کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پشاور کے مسائل اور اِس کے ماضی و حال کو زیادہ بہتر و مربوط انداز میں مقامی اور عالمی سطح پر اُجاگر کر سکتے ہیں۔پشاور کے ماضی ‘ حال اور مستقبل کا تحفظ اب نئی نسل کے حوالے ہے اور اس ضمن میں بھرپور آگاہی اور شعور اجاگر کرنے سے ہی یہ اہم مرحلہ طے ہو گا۔