عید الاضحی کے موقع پر ’جنوب مشرق ایشیا کے قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر کی اُن اقدار اور معمولات پر نظر کرنے کا مناسب و نادر موقع ہے جو ایک ایک کر کے ختم یا تبدیل ہو چکی ہیں۔ اہل پشاور کی ’عید الاضحی‘ کیا تھی اور کیا ہے؟ ماضی و حال کا یہ جائزہ پیش کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ’پیشوری‘ اِس بارے میں بھی سوچیں کہ ’پشاوریات‘ کس طرح خاطرخواہ توجہ سے محروم ہیں اور اِس تجاہل عارفانہ کی وجہ سے کتنی ہی خوبیاں نئی نسل کو منتقل نہیں ہو سکی ہے اور اِس بات پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہوگا۔پہلی بات: ’عید الاضحی‘ کیا ہے؟ دین اسلام کے دو اہم تہوار ’عیدین‘ ہیں‘ جن میں سے ایک ہجری (قمری) کلینڈر کے آخری ماہ (ذی الحجہ) کی دسویں تاریخ کو پورے عالم اسلام میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اِس عید کا آغاز 624ءمیں ہوا۔ ابوداو¿د میں موجود ایک حدیث مبارکہ کے مطابق ”حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے پہلے اہلِ مدینہ دو عیدیں مناتے تھے‘ جن میں کھیل تماشے (لہو و لعب) ہوتے اور بے راہ روی کا کھلے عام ارتکاب کیا جاتا۔ ختمی مرتبت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھ کر دریافت فرمایا کہ اِن ایام کی حقیقت کیا ہے؟ تو بتایا گیا کہ عہد ِجاہلیت سے یہ دونوں تہوار منائے جا رہے ہیں تو یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اِن سے بہتر دو مواقع تمہیں عطا کئے ہیں‘ ایک ’عید الفطر‘ اور دوسرا ’عید الاضحی‘ ہیں۔“ فرق یہ ہے کہ عیدالاضحی ’انتہائی بامقصد تہوار ہے۔ اِس دِن کی مانگی جانے والی دعاو¿ں کی قبولیت کا عندیہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ عید الاضحیٰ کے ایام (تین دن) غافل نہ رہیں اور چلتے پھرتے‘ اُٹھتے بیٹھتے‘ اللہ تعالیٰ کے حضور دل ہی دل اور کبھی ہاتھ اُٹھا کر‘ کبھی سجدہ ریز ہو کر تو کبھی کروٹ کروٹ اور پہلو پہلو آرام کرتے ہوئے ’توبہ استغفار‘ میں مشغول رہیں تاکہ ’عیدالاضحی‘ کے مبارک ایام ضائع نہ ہوں۔ پروردگار کے حضور گڑگڑا کر دعا کرنے سے زیادہ بہتر کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ اپنی کوتاہیوں‘ گناہوں کی معافی اور رب کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہنی چاہئے۔ یوم عرفہ سے منسوب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی معروف دعا (دعائے عرفہ) کا ایک جملہ ہے کہ ”اے اللہ جس نے تجھے پا لیا اُسے کیا کھویا اور جس نے تجھے کھو دیا تو اُس نے کیا پایا؟“ بس یہی اصول سارا سال پیش نظر رہنا چاہئے کہ اللہ کے سوا‘ اگر کچھ بھی پایا گیا تو وہ بے معنی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کو پا لیا گیا تو یہی دنیا و آخرت میں کامیابی ہے۔ ’عید الاضحی‘ کا خاص عمل ’قربانی‘ ہے۔ عیدالاضحی کے دن جانور کے گلے پر رسماً اور عادتاًچھری چلائی جاتی ہے جو بہت آسان ہے لیکن اگر اسوہ¿ ابراہیمی کو مدنظر رکھا جائے تو یہ قطعی آسان مرحلہ نہیں کیونکہ جن مراحل سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزرے اور جس طرح اُن کی ساری زندگی مسلسل قربانیوں سے عبارت رہی تو اِس سے معلوم ہوتا کہ ’محبوبان الٰہی‘ کو امتحان (آزمائش) جیسی منزلوں سے واسطہ رہتا ہے اور قدم قدم پر اِنہیں جاں نثاری‘ تسلیم ورضا کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔دوسری بات: ماضی و حال کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو آج پشاور کی عید اور عید پر پشاور کا ماحول یکسر مختلف دکھائی دیتا ہے۔ گلی محلوں میں ایک خاندان کی صورت رہنے والے خوشی و غم کے تہواروں کے ایک دوسرے کے زیادہ قریب اور شریک ہو جاتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ اِس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ عید الاضحی کے موقع پر محلے کا کوئی گھر ایسا بھی ہو گا کہ جو مالی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے قربانی نہ کرے لیکن اُس کے ہاں گوشت نہ پکے بلکہ سب سے زیادہ گوشت اُنہی کے گھروں میں جمع ہوتا۔ اگرچہ ’پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو)‘ نے اعلان کیا ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر بجلی کی فراہمی میں تعطل (لوڈشیڈنگ) نہیں ہوگی اور یقینا اِس بلندبانگ دعوے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کی جائے گی لیکن جہاں بجلی کی پیداوار اِس کی طلب کے مقابلے کم ہو‘ وہاں اچانک بلاتعطل بجلی کی فراہمی کیسے ممکن ہوگی اور اضافی بجلی کہاں سے آئے گی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر عیدالاضحی کے موقع پر (تین دن) بجلی بلاتعطل فراہم ہو سکتی ہے تو دیگر ایام میں بھی ایسا ہو سکتا ہے لیکن فی الحال اِسی بات پر اکتفا کرتے ہیں کہ عیدالاضحی کے موقع پر ’بجلی کی لوڈشیڈنگ‘ نہیں ہوگی۔ اُمید یہ بھی ہے کہ عیدالاضحی کے ایام میں پشاور کے لئے گیس فراہمی بھی بلاتعطل جاری رکھنے کا عملی مظاہرہ کر کے ’سوئی نادرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ‘ دعائیں سمیٹے گا کیونکہ اگر عیدالاضحی پر گیس نہ ہوئی تو کھانے پکانے کے معمولات شدید متاثر ہوں گے۔ عید سے قبل‘ گرمی کی شدت میں کچھ کمی آئی ہے تاہم بجلی و گیس کی ضرورت اپنی جگہ برقرار ہے۔ تیسری بات: عیدالاضحی اور عیدالفطر کا ایک فرق یہ بھی ہے کہ عید کی نماز کے لئے جانے سے قبل حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول (سنت عمل) یہ ہوتا تھا کہ آپ عیدالفطر کی نماز سے قبل میٹھا کھا کر مسجد جاتے لیکن عیدالاضحی کے موقع پر دن کا پہلا کھانا قربانی کے گوشت ہی سے تناول فرماتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنتوں بھری اور ہمدردی و ملنساری سے بھرپور ’حساسیت سے مزین‘ عیدالاضحی منانے کی توفیق عطا فرمائے اور عید کے اِن ’پُرمسرت لمحات‘ میں اظہار ِتشکر کا کوئی بھی بظاہر چھوٹا لیکن درحقیقت نادر موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔